شاہینہ شاہین بنامِ معاشرہ۔۔۔
تحریر: رخشندہ تاج بلوچ 5ستمبر کا ایک دن جب کسی دوست کے گھر برتھ ڈے پارٹی میں ہنستے ہنستے موبائل میں موجود وٹس اپ پہ نظر پڑی تو آنکھوں پہ یقین نہیں آیا۔ سکتہ سا طاری ہوگیا۔ وجود جکڑ سا گیا۔ خوشی کافور ہوگئی۔ اور بے اختیار منہ سے نکا'' شائینہ قتل ہوگئی'' محفل میں خاموشی چھاگئی۔ وہاں بیٹھے ہوئے شاہد کوئی شائینہ کو نہیں جانتا تھا۔ جو چند افسوس کے بعد پھر سے اپنی شغل میں مصروف ہوگئے۔ لیکن میں کیسے بھول جاتی، میں کیسے زہن کو پُرسکو ن کرتی، میں کسیے درگزر کرتی، وہ تو میرے دماغ میں پیوست ہوگئی تھی۔ مجھے وہ دن یاد آئے جب وہ فرسٹ ایئرکی سٹوڈنٹ تھی اور اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ مجھ سے ملنے آئی تھی۔ اور کہا کہ میں بہت کچھ کرنا چاہتی ہوں، آگے بڑھنا چاہتی ہوں، اور کہا ہم پانچ بہنیں ہیں بھائی کوئی نہیں، باپ بھی نہیں ہے صرف ماں ہے، میں اپنی ماں بہنوں کے لئے کرنا چاہتی ہوں۔ اُس چھوٹی سی دھان پان کی لڑکی میں ایک عجیب سی ایک دھن تھی، ایک لگن تھی، اُس میں ایک بے باکانہ سا خود اعتمادی تھی۔ جس کو دیکھ کر مجھے اُس کے لیے فکر سی ہوگئی، میرے دل نے کہا کہ یہ معاشرہ ضرور اِس کو ستائے گا۔ اُس میں