اشاعتیں

مارچ, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

غیرت کے نام پہ قتل کب بند ہوگا۔۔۔۔؟

تصویر
تحریر: رخشندہ تاج بلوچ جب میں اپنی بیٹی کو گھسیٹ کر کمرے میں لے کر آیا اور دروازہ اندر سے بند کردیا ، اُس کی ماں دروازے کے اُس پار بین کررہی تھی، دروازہ پیٹھ رہی تھی، میری بیٹی خود کو آزاد کرنے کی کوشش میں تھی لیکن مجھ پر خون سوار تھا، میں نے اُس کا سر الماری میں رکھے کپڑوں میں دبا دیا تاکہ اُس کی چیخ باہر نہ جائے، اور پھرمیں نے اُس کے سر پہ دو فائر مارے، وہ صحیح طرح سے چیخ بھی نہیں سکی، توڑا تڑپنے کے بعد وہ ٹھنڈی پڑ گئی، میں نے اُس کو زمین پہ لٹا دیا، اُس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھی، چہرے پہ معصومیت کی جگہ وحشت نے لے لی تھی۔ مجھے اپنی بیٹی سے بہت پیار تھا، میر ے ہاتھ کانپ رہے تھے لیکن اگرمیں اُس کو نہ مارتا تو سماج کو کیا منہ دیکھاتا، کیسے سامنا کرتا معاشرے کا، میری تو ناک کٹ جاتی، میرے غیرت پہ لوگ انگلی اُٹھاتے، پھر یہ طعنہ میری نسلوں تک کو بھی سننی پڑتا۔ میرا دل تو جل رہا تھا لیکن میں مطمئن تھا، اب مجھے کوئی بھی یہ طعنہ نہیں دے گا کہ بدچلن بیٹی کو نہیں مارسکا"۔ بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کرنے کا یہ کوئی پہلا قتل نہیں ہے۔ سال 2021 میں خواتین پر تشدد کے 129 کیس

بلوچستان میں کینسر سے لڑتے ہوئے مریض

تصویر
تحریر: رخشندہ تاج بلوچ کینسر سے متاثرہ افراد کے لئے اکثر ہم ایسے الفاظ کا چناﺅ کرتے ہیں جس سے وہ ہمیت پکڑے اور موت سے پہلے موت کے منہ میں نہ جائے۔ لیکن ہم اِن الفاظ کا چناﺅ کرکے اپنا حق ادا کرتے ہیں اور کینسر زدہ شخص صر ف مسکرا کر رہ جاتا ہے ، اُس کی مسراہٹ کو دیکھ کر ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے الفاظ کارگر ثابت ہوگئے ہیں لیکن اُس بیمار شخص کو پتا ہوتا ہے کہ وہ روز بہ روز زندگی کی خاتمے کی طرف جارہا ہے ۔ ہوسکتا ہے کچھ افرادکے لیے یہ الفاظ واقع سود مند ثابت ہوں لیکن کچھ کے لیے سوائے لفاظی کے اور کچھ نہیں ہے ۔ کیونکہ وہ اندر سے جذباتی اور صدمے کار شکار ہوجاتے ہیں ، اور جب اُن کے اپنے خاندان اور دوست اُن کے اِس کیفیت کو سمجھ نہیں پاتے ہیں تو اُس کی زندگی مزید مشکل ہوجاتی ہے ۔ کیونکہ وہ الفاظ نہیں مدد چاہتے ہیں،علاج چاہتے ہیں۔ اِس درد سے چھٹکارہ پانا چاہتے ہیں ، زندگی چاہتے ہیں۔ اپنے لئے بہتر نگہداشت چاہتے ہیں ، اپنا علاج چاہتے ہیں جو ریاست کی زمہ داری ہے ۔ لیکن یہ زمہ داری کو ادا کرنے میں تاخیر برتی جارہی ہے ۔ حمل ظفر کی وہ مسکراہٹ ج

تربت کیچ میں برن سینٹر کیوں نہیں ہے ؟

تصویر
تحریر : رخشندہ تاج بلوچ ڈسٹرکٹ تربت کی رہائشی رقیہ ( فرضی نام ) گھر والو ں سے کسی بات پر جھگڑ کر اُس نے خود پہ پیٹرول چھڑکا اور آگ لگادی ، گھر والوں نے آگ بھجا دی اور اُس کو ڈسٹرکٹ سول ہسپتال لے کر گئے، اُس کے جسم کا ادھا حصہ مکمل طور پر جھلس چکا تھا، چار دنوں تک وہ مسلسل جلن اور درد کی تکلیف سے جوجتی رہی،کراچی جانے کے لیے اُس کے خاندان کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے، آخرکار اُس کی ڈیتھ ہوگئی،اگر ڈسٹرکٹ کیچ میں برن سینٹر ہوتا تو ہوسکتا تھا کہ وہ نہ مرتی۔ ایک اور واقعہ سال 2018 میں بلوچستان کے شہر تربت میں پیش آیا جس میں گیس سیلنڈر کا دھماکہ ہوا اور اسکول بس میں سوار ننھے ننھے بچے آگ کی نظر ہوگئے، اِس دل دہلا دینے واقعے میں ایک ہی ماں کے 4 بچے دیکھتے ہی دیکھتے آگ کی لپیٹ میں آگئے، لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اُن کو ہسپتال پہنچایا، لیکن امیر صوبہ کے غریب بچے برن سینٹر نہ ہونے کی وجہ سے ماہی بے آب اور مرغ بسمل کی طرح تڑپتے رہے اور کچھ بچے اِسی طرح جلے بھنے بدنوں کے ساتھ کراچی روانا کیے گئے لیکن اُن میں سے کچھ ابلہ اور سوختہ بدن درد کی شدت کو نہ سہتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جام

معذور افراد سماج کا حصہ ہیں۔۔۔ احساس کیجئے

تصویر
تحریر : رخشندہ تاج بلوچ 3دسمبر کو باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی خصوصی افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 1992 کو منظور ہونے والی قراد داد کے تحت ہر سال منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے 2006 میں کنونشن برائے حقوق معذوراں منظور کیا اور دستخط کنندہ ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ خصوصی افراد کو مساوی موقع دینےکےلیے قوانین بنائیں۔ مملکت پاکستان نے بھی اِس کنونشن پر دستخط کئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 1 کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد مختلف جسمانی معذوریوں سے ہمہ وقت نبرآزما ہیں۔ وہ تما م افراد جن میں سمجھنے، دیکھنے، سننے ، سونگھنے، بولنے ، چلنےپھرنے کی صؒلاحیت عام لوگوں سے کم ہو وہ خصوصی افراد کہلاتے ہیں۔ اسپیشل پرسن کےحوالے سے ہمارےمعاشرے کا روایہ ہمیشہ سے غیر مناسب رہا ہے ۔ یا ہم نے اُن کا تمسخر اُڑایا ہے یا پھر اُن کو رحم اور حیرت سے تکاہے کھبی اُن کی صلاحیتوں کو نہیں پرکھا ہے، اُن کو کھبی اُن کا ہنر دیکھانے کا موقع نہیں دیاہے، ہمیشہ سے اُن کے بارے میں صرف یہ نظریہ رکھا ہے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں کرسکتے۔حلانکہ خصوصی افراد نے رحم اور ب

معذور افراد سماج کا حصہ ہیں۔۔۔ احساس کیجئے

تصویر
تحریر : رخشندہ تاج بلوچ 3دسمبر کو باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی خصوصی افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 1992 کو منظور ہونے والی قراد داد کے تحت ہر سال منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے 2006 میں کنونشن برائے حقوق معذوراں منظور کیا اور دستخط کنندہ ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ خصوصی افراد کو مساوی موقع دینےکےلیے قوانین بنائیں۔ مملکت پاکستان نے بھی اِس کنونشن پر دستخط کئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 1 کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد مختلف جسمانی معذوریوں سے ہمہ وقت نبرآزما ہیں۔ وہ تما م افراد جن میں سمجھنے، دیکھنے، سننے ، سونگھنے، بولنے ، چلنےپھرنے کی صؒلاحیت عام لوگوں سے کم ہو وہ خصوصی افراد کہلاتے ہیں۔ اسپیشل پرسن کےحوالے سے ہمارےمعاشرے کا روایہ ہمیشہ سے غیر مناسب رہا ہے ۔ یا ہم نے اُن کا تمسخر اُڑایا ہے یا پھر اُن کو رحم اور حیرت سے تکاہے کھبی اُن کی صلاحیتوں کو نہیں پرکھا ہے، اُن کو کھبی اُن کا ہنر دیکھانے کا موقع نہیں دیاہے، ہمیشہ سے اُن کے بارے میں صرف یہ نظریہ رکھا ہے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں کرسکتے۔حلانکہ خصوصی افراد نے رحم اور ب

زمانہ بدل گیا عورت کی تقدیر نہیں بدلی۔۔۔۔۔۔

تصویر
تحریر: رخشندہ تاج بلوچ پھٹے ہوئے ہونٹ ، سوجھا ہوا منہ، نیل پڑے رخسار، بکھرے بال ، ہاتھوں اور گردن پہ کھروچ کے نشانات واضح طور پر یہ پیغام دے رہے تھے کہ اُس پر بہت کچھ گزر اہے۔ اُس کو ازیتیں دی گئی ہیں، پیروں پہ بھی نیل کے نشان تھے۔ آواز کی لڑکھڑاہت روح کی شکستگی بھی بیان کررہی تھی۔ سکینہ ( فرضی نام ) 4 سال قبل اُس کی شادی وٹے سٹے کے تحت ہوئی تھی، اُس کی ایک 18 ماہ کی بیٹی بھی تھی۔ اُس نے بتایا کہ " شادی کے شروع کے دن تو میرا میاں میرا بہت خیال رکھتا تھا ، پھر بعد میں میری بھابھی جو وٹے سٹے میں گئی تھی ، نے شکایتیں شروع کئے کہ اُس کے ساتھ سسرال میں برا سلوک کیا جاتا ہے ، پھر یہاں میرا جینا مشکل ہوگیا، جب بھی اُس کی کال آتی مجھے یہاں اُس کی قیمت چکانی پڑتی، ، طعنے سننے پڑتے، مارکھانی پڑتی، مجھے بھوکا رکھا جاتا، گھر کے سارے کام مجھ سے کرائے جاتے۔ لیکن میں کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی ، کیونکہ ماں باپ نے رخصت کرتے وقت نصیحت کی تھی کہ اب اِس گھرمیں تمہارا صرف جنازہ ہی دوبارہ آئے گا۔ورنہ برادری میں ناک کٹ جائے گی۔ اور جب میں نے اپنے اوپر ہونے والی تشدد

تھیلیسیمیا کی روک تھام کیسے ممکن ہو؟

تصویر
تحریر: رخشندہ تاج بلوچ اولاد ایک نعمت ہے ، جس کے پیدا ہونے کے بعد ماں باپ کی زندگی بدل جاتی ہے ، احساسات چینج ہوجاتے ہیں ، انسان میں احساسِ زمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ یہ کہ زندگی کا زاویہ ہی بدل جاتا ہے اور سارا محور ہی ایک ننھی سی جان بن جاتی ہے۔ لیکن جو وجود انسان کو زندگی کا احساس دلاکر خود ہر روز درد اور تکلیف میں مبتلا ہو تو سوچو اُن ماں باپ پر کیا گزرتی ہوگی۔ جن کے سامنے اُن کے جگر گوشے ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوں اور جن کی زندگی دوسروں کی ثواب دید پہ ہو ، جو دوسروں کے خون کے عطیات پہ زندہ ہوں۔ بہت مشکل ہوتی ہیں اُن خاندانوں کے لئے کہ جو اپنے بچوں کو زندگی دینے کے لئے خون کا عطیہ مانگتے ہیں۔ جی میں اُن بچوں کی بات کررہی ہوں جو تھیلیسیمیا جیسے مرض میں مبتلا ہے۔ جن کی زندگیاں عام بچوں سے ہٹ کر ہوتی ہیں جن کی جسمانی ساخت عام بچوں سے مختلف ہوجاتی ہے۔ جن کو چھوٹے عمروں میں بہت سے تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ جن کو مقررہ وقت تک ہر حال میں خون چاہیئے ہوتا ہے۔ جو نرم روئی کی طرح گداز ہوتی ہیں ، جن کی روحیں پاک شفاف ہوتی ہیں، تتلیوں کی پروں کی طرح اتنے نرم و نازک کہ ہوا بھی لگے ت