تربت کیچ میں برن سینٹر کیوں نہیں ہے ؟

تحریر : رخشندہ تاج بلوچ
ڈسٹرکٹ تربت کی رہائشی رقیہ ( فرضی نام ) گھر والو ں سے کسی بات پر جھگڑ کر اُس نے خود پہ پیٹرول چھڑکا اور آگ لگادی ، گھر والوں نے آگ بھجا دی اور اُس کو ڈسٹرکٹ سول ہسپتال لے کر گئے، اُس کے جسم کا ادھا حصہ مکمل طور پر جھلس چکا تھا، چار دنوں تک وہ مسلسل جلن اور درد کی تکلیف سے جوجتی رہی،کراچی جانے کے لیے اُس کے خاندان کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے، آخرکار اُس کی ڈیتھ ہوگئی،اگر ڈسٹرکٹ کیچ میں برن سینٹر ہوتا تو ہوسکتا تھا کہ وہ نہ مرتی۔ ایک اور واقعہ سال 2018 میں بلوچستان کے شہر تربت میں پیش آیا جس میں گیس سیلنڈر کا دھماکہ ہوا اور اسکول بس میں سوار ننھے ننھے بچے آگ کی نظر ہوگئے، اِس دل دہلا دینے واقعے میں ایک ہی ماں کے 4 بچے دیکھتے ہی دیکھتے آگ کی لپیٹ میں آگئے، لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اُن کو ہسپتال پہنچایا، لیکن امیر صوبہ کے غریب بچے برن سینٹر نہ ہونے کی وجہ سے ماہی بے آب اور مرغ بسمل کی طرح تڑپتے رہے اور کچھ بچے اِسی طرح جلے بھنے بدنوں کے ساتھ کراچی روانا کیے گئے لیکن اُن میں سے کچھ ابلہ اور سوختہ بدن درد کی شدت کو نہ سہتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اُس وقت شہر تربت قیامت ِ صغرا کا منظر بنا ہواتھا، جلتی ہوئی کتابیں جن میں تتلیوں کی تصویریں بنی ہوئی ۔ فضا میں جلے ہوئے گوشت اور خون کی بو سے دماغ کے رگیں پھٹ رہے تھے۔ہم نے اُس وقت بہت شور مچایا ، افسوس کیا، لیکن پھر جیسے ہی معاملہ ٹھنڈا ہواہم لمبی تھان کر سوگئے۔
ہمارے پاس تو اُن ستم ظریفوں کے لیے صرف دلاسے کے چند بول ہی تھے ۔ انتظامیہ نے شہر کے اندر ایل پی جی گیس پہ باپندی لگائی دی اورمتعلقہ ڈیلرز کو شہر سے باہر دکان کھولنے کا فرمان جاری ہوا، یہ وہ خاص اقدام تھے ، لیکن متاثرین خاندان اور عام عوام کا سب سے بڑ ا مطالبہ یہ تھا کہ ڈسٹرکٹ ہسپتال میں برن سینٹر ہونی چاہئے اگر یہ ہوتا تو ہوسکتا ہے ہمارے بچے بچ جاتے"۔
تربت شہر پاکستان کے صوبے بلوچستان کے جنوبی حصے میں واقع ہے۔ جہاں ایک ڈسٹرکٹ ہستپال ہے۔ جس میں روزانہ کی بنیاد پر مختلف بیماریوں سے نبردآزمامریضوں کا چیک اپ کیا جاتا ہے ۔ جس میں دور دراز کے مریض بھی شامل ہیں ، جن میں غریب مریضوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن ڈسٹرکٹ سول ہسپتال تربت میں برن سینٹر نہیں ہے جس کی وجہ سے جلے ہوئے مریض بڑی تکلیف میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جب کہ یہ سینٹر ہرشہر میں ہونے چاہیئے، لیکن اتنا ضروری ہونے کے باوجود یہ کیوں نہیں ہے ، اِس کے لیے جب بات کی ڈسٹرکٹ سول ہسپتال کے سابق ایم ایس میر محمد یوسف سے تو اُنہوں نے بتایا کہ " برن سینٹر کی اپنی ریکوارمنٹس ہوتے ہیں، برن سینٹر تو آغا خان میں بھی نہیں ہے، سول ہسپتال کراچی اور کراچی کے ایک دو اور ہسپتال میں ہے، برن سینٹرکے لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہر مریض کے لیے ایک وینٹی لیٹر ہو، کیونکہ مریض کسی بھی وقت وینٹی لیٹر پر شفرہوسکتا ہے۔ دوسرا یہ وینٹی لیٹر آپریٹ کرنے کے لیے عملے ہوں۔ برن سینٹرکے لیے ایک علیحدہ "آئی سی یو" کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِس کی ریکوارٹمنٹ زیادہ ہیں اِسی لیے یہ ابھی تک تربت میں نہیں ہے ، اگر برن 30 یا 40 فیصد ہے اور کوئی ارگن متاثر نہیں ہے تو ہم اُس کو یہی پہ ٹریٹمنٹ دیتے ہیں تاکہ اُس کا برن اسکین لیول تک ٹھیک ہوجائے ، اگر کوئی اندورنی عضا متاثر ہوجائے تو ہم اُن کو کراچی شفٹ کرتے ہیں۔
اگر کوئی گن شاٹ کیس ہو یا کوئی اور مرض ہو تو اُس کے لیے بیٹھ کر یا لیٹ کر سفر کرنا اتنا مشکل نہیں ہوگا جتنا ایک "جلے" کے مریض کے لیے ہوگا کیونکہ نہ تو وہ بیٹھ سکتا ہے اور نہ وہ لیٹ سکتا ہے، اُن کے لیے سفر کرنا بہت ہی تکلیف دہ ہوتا ہے، سفر کرنے کی وجہ سے بہت سے مریضوں کی ڈیتھ بھی ہوگئی ہے۔ اِس حوالے سے ہم نے 6 بیڈ کی ایک چھوٹی سی " آئی سی یو" خود سیٹ کی ہے ، جس میں 4 وینٹی لیٹرز ہیں، چار اسٹاف ہیں جن کو ذاتی طور پر کراچی کے ہیلتھ شعبے کے دوستوں سے بات کرکے جناح ہسپتال کراچی میں ایک مہینے کی ٹریننگ کروائی، لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے یہ فُل ٹرینڈ ہیں کیونکہ یہ صرف آئی سی یو کی بیسک سیکھ چکے ہیں اور چار اسٹاف ہیں جب کہ اِس کے لیے کم از کم 15 اسٹاف کی ضرورت ہوتی ہے۔ برن سینٹر کا قیا م ہونا سرکاری سطح کا اقدام ہے، منسٹری لیول کا ایشو ہے کیونکہ اِس کے لیے ایک قطیر رقم درکار ہوتی ہے ، اِس کے لیے جدید مشینری اور اسٹاف کو ٹریننگ دینے کی ضرورت ہوتی ہے، یہ پھر صرف ایک برن سینٹر نہیں ہوگا بلکہ ایک آئی سی یو سینٹر بھی ہوگا۔ آئی سی یو سینٹر کی بلڈنگ تو بن گئی ہے لیکن اُس کے سازو سامان بہت مہنگے ہیں اِس لیےابھی تک نہیں پہنچے ہیں۔ بلڈنگ فل تیار نہیں ہے ایک دو مہینوں میں تیار ہوجائے گی۔ اگر آئی سی یو تیار ہوجائے تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم " برن سینٹر" کی طرف جارہے ہیں۔ اُنہوں کے کہا کہ ہم نے جو چھوٹے پیمانے پہ 6 بیڈ کی آئی سی یو شروع کی تھی اُس نے ہمیں بہت فائدہ پہنچایا ، لیکن اُس میں چار اسٹاف جس میں دو نرس اور دو ڈسپنسرز شامل ہیں وہ ناکافی ہیں کیونکہ ہر ایک مریض کے لیے ایک اسٹاف کی ضرورت ہوتی ہے چائے برن کا مریض ہو یا کوئی اور مرض کا مریض ہو اُن کو کیئر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے پاس اسکن اسپیشلسٹ نہیں ہے، ایچ آر کا ایشو ہے۔ہمیں اس کے لیے باقاعدہ ایک 'پی سی ون' تیار کرنی پڑے گی۔ ہمیں ضرورت کی ساری ساز و سامان میسر ہوں،اُنہوں نے کہا کہ برن سینٹر اور دیگر ایشوز کے لیے احکام بالا کو درخواستیں بھی دی ہیں لیکن فلحال کوئی اقدامات نہیں کیے گئے"۔ کیونکہ یہ تربت کی بہت بڑی ضرورت ہے اِس مسلئے کو ہنگامی بنیادوں پہ حل ہوجانا چاہیئے۔ ان سے انسانی صحت اور انسانی جان وابسطہ ہیں، اِس کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اِس حوالے سے ایڈووکیٹ شکیل احمد زامرانی جو بلوچستان ہائی کورٹ بار کے سنیئر نائب صدر بھی ہیں اُنہوں نے دوسال قبل ڈسٹرکٹ سول ہسپتال تربت میں صحت کے دیگر سہولیات سمیت بران سینٹر کی فقدان کے خلاف 'بلوچستان ہائی کورٹ' میں پٹیشن داخل کی ہے ۔تربت جوکہ ایڈکوارٹر ہے اَس سمیت سارے مکران میں کوئی بھی برن سینٹر نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ 2018میں ڈسٹرکٹ تربت میں گیس سلینڈر دھماکہ ہوا تھاجس میں اسکول کے بچے سمیت بہت سے لوگ آگ کی زد میں آگئے تھے۔
ہسپتال میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے معصوم بچے اور دیگر زخمی تڑپ رہے تھے، معصوم بچوں کی والدین اور عام عوام کی بے بسی دیکھ کر عدالت جانے کا فیصلہ کیا ، اِس حوالے سےپٹیشن بلوچستان ہائی کورٹ میں داخل کیا جو کورٹ نے اِس کو ایڈمیٹ کیا اور ریگولر بیسز پہ سنوائی ہوتی ہے۔ اُنہوں نے کہا گورنمنٹ کا جواب تو فلحال پازیٹو ہے اِ س حوالے سے لیکن کوئی عمل درآمد نہیں ہورہا ہے۔ہمیں برن یونٹ کی ضرورت ہے۔ میرا علاقہ بہت سی بنیادی سہولیات سے محروم ہے ، اپنے علاقے کی عوام کو صحت سمیت دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے مختلف پٹیشن داخل کیے ہیں جن میں کچھ نمٹ گئے ہیں اور کچھ فینڈنگ میں ہیں، لیکن یہ(برن سینٹر) سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ یہ صحت سے متعلق ہے جس میں کوئی کمپرومائز کیا نہیں جاسکتا ہے۔ اِس پٹیشن کے جواب میں سرکار نے نہ ہاں میں جواب دیا ہے اور نہ ناں میں ۔ کیونکہ قانونی طور پر سرکارکا موقف کمزور ہے۔ اُن کو کوئی نہ کوئی جواب تو دینا ہی ہے۔ عدالت جانے سے ہمارے کافی سارے مسائل حل ہوگئے ہیں۔ ایم آئی آر، لیبارٹری، میڈیسن کے مسائل ایک حد تک حل ہوگئے ہیں۔ بلڈنگ کا مسلئہ کافی حد تک حل ہوگیا"۔ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے مجریہ 1948 میں کہا گیا ہے کہ ہر فرد اور اُس کے خاندان کو صحت کی مناسب سہولیات کا حق حاصل ہے، اِس کے علاوہ اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کے آئین میں درج ہے کہ ' صحت کے بلند ترین معیار سے استفادہ کرنا ہر فرد کا بنیادی حق ہے' ۔ لیکن بات یہاں معیار سے بالا تر ہوکر انسانی زندگیوں تک پہنچ گئی ہے جو اہم اور بیش قیمتی ہیں ۔ پتا نہیں کب تک ہمارے احکا م بالا کو اُن کی اہمیت کا اندازہوگا؟۔۔۔۔۔۔

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

زمانہ بدل گیا عورت کی تقدیر نہیں بدلی۔۔۔۔۔۔

بلوچستان میں کینسر سے لڑتے ہوئے مریض

کورٹ ڈائری۔۔۔۔۔۔ کہانی نمبر 1