اشاعتیں

ایڈووکیٹ شکیل احمد زعمرانی ! مکران کی عوام الناس کے مسائل کے لیے کاوشیں

تصویر
تحریر: رخشندہ تاج بلوچ بڑے بوڑھے ہمیشہ یہی ایک دعا دیتے ہیں کہ خدا تمہیں ہسپتال ، تھانے اور کورٹ کچہری سے دور رکھے۔ جو دعا لینے والوں کے دل میں ایک عجیب وسوسہ اور ڈر پیدا کردیتے ہیں۔ اور اُن کے لئے یہ تنیوں چیزیں بہت بڑی چیزیں ہوکر بڑے ڈر کی شکل اختیار کرلتیے ہیں ۔ لیکن وقت حاضر کو دیکھ کر لگتاہے کہ اب بڑے بوڑھوں کو اپنی دعاؤں میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے ، کیونکہ کورٹ کچری انسان کے زندگی کا ایک حصہ بن چکے ہیں ، جن کے بنا کوئی بھی حق انسان آسانی سے حاصل نہیں کرپا رہا۔ نا لوگوں کو اُن کے جائز حقوق دیے جارہے ہیں اور نا کہیں سنوائی ہورہی ہے۔ لوگوں کو چھوٹے سے چھوتی کام کے لیے بھی رُلنا پڑتا ہے۔ منتیں کرنے پڑتے ہیں، ٹیسٹ انٹریو میں کوالیفائی کرنے کے باوجود بھی کسی وزیر کی آشرواد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ نوجوان بے روزگاری سے تنگ آکر برے کاموں میں ملوث ہورہے ہیں، ایک تجروبہ کار اور ٹیلینٹڈ نوجوان کے اوپر ایک سفارشی اور رشوت دینے والا بازی لے جاتا ہے۔ غریب کی اولاد ہمیشہ رُلتی رہتی ہے۔ جہاں غریب کے لئے قانون کے دروازے تک نہیں کھلتے اوروہاں امیر کے لیے قانون خود چل کر

کورٹ ڈائری۔۔۔۔۔۔ کہانی نمبر 1

تصویر
تحریر: رخشندہ تاج بلوچ صبح 11 بج کر 50 منٹ دن :- ہفتہ سیول کورٹ ایف ایٹ کچہری اسلام آباد۔۔۔ جب میں تھکے ہوئے سیڑھیاں پار کرکے کورٹ میں داخل ہوئی تو خلاپ معمول آ ج رش زیادہ تھا۔ کرسیاں سائلین سے بھری ہوئی تھی جب کہ کچھ لوگ کھڑے تھے، میں بھی جاکر ایک کونے میں کھڑی ہوگئی۔جج بارعب اندازمیں اپنے مسند پہ براجمان تھے، اُن کے سامنے وکلا ء اپنے کلائنٹس کے ساتھ کھڑے تھے اور اپنے اپنے کلائنٹس کا دفاع کررہے تھے ، کچھ کے درمیان رشتے تقریباََ مرچکے تھے اور وہ صرف اُن کو دستور کے مطابق قانونی کفن پہناکر قانونی موت دینا چاہتے تھے۔ عمر رسیدہ خواتین کے ہاتھوں میں تسبیاں اور جوان عورتوں کے چہروں پہ وحشت کے آثار دیکھائی دے رہے تھے۔ کچھ معصوم چھوٹے بچے دنیا کے معاملات سے بے نیاہوکر کورٹ کے ننگے فرش پہ کھیل رہے تھے ، اور کچھ کے چہروں پہ خوف کا پہرا لگتا ہے اور وہ اپنی ماؤں سے چپک کر بیٹھے ہیں۔ کبھی خاموشی ہوتی تو کبھی منھمنانے کی آواز یں آتی ۔ جب ایک دم سے خاموشی ہوجاتی ہے تو وکیلوں کے بوٹوں کے ٹک ٹک کی وجہ سے کورٹ کے ماحول میں ارتعا

شاہینہ شاہین بنامِ معاشرہ۔۔۔

تصویر
تحریر: رخشندہ تاج بلوچ 5ستمبر کا ایک دن جب کسی دوست کے گھر برتھ ڈے پارٹی میں ہنستے ہنستے موبائل میں موجود وٹس اپ پہ نظر پڑی تو آنکھوں پہ یقین نہیں آیا۔ سکتہ سا طاری ہوگیا۔ وجود جکڑ سا گیا۔ خوشی کافور ہوگئی۔ اور بے اختیار منہ سے نکا'' شائینہ قتل ہوگئی'' محفل میں خاموشی چھاگئی۔ وہاں بیٹھے ہوئے شاہد کوئی شائینہ کو نہیں جانتا تھا۔ جو چند افسوس کے بعد پھر سے اپنی شغل میں مصروف ہوگئے۔ لیکن میں کیسے بھول جاتی، میں کیسے زہن کو پُرسکو ن کرتی، میں کسیے درگزر کرتی، وہ تو میرے دماغ میں پیوست ہوگئی تھی۔ مجھے وہ دن یاد آئے جب وہ فرسٹ ایئرکی سٹوڈنٹ تھی اور اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ مجھ سے ملنے آئی تھی۔ اور کہا کہ میں بہت کچھ کرنا چاہتی ہوں، آگے بڑھنا چاہتی ہوں، اور کہا ہم پانچ بہنیں ہیں بھائی کوئی نہیں، باپ بھی نہیں ہے صرف ماں ہے، میں اپنی ماں بہنوں کے لئے کرنا چاہتی ہوں۔ اُس چھوٹی سی دھان پان کی لڑکی میں ایک عجیب سی ایک دھن تھی، ایک لگن تھی، اُس میں ایک بے باکانہ سا خود اعتمادی تھی۔ جس کو دیکھ کر مجھے اُس کے لیے فکر سی ہوگئی، میرے دل نے کہا کہ یہ معاشرہ ضرور اِس کو ستائے گا۔ اُس میں

غیرت کے نام پہ قتل کب بند ہوگا۔۔۔۔؟

تصویر
تحریر: رخشندہ تاج بلوچ جب میں اپنی بیٹی کو گھسیٹ کر کمرے میں لے کر آیا اور دروازہ اندر سے بند کردیا ، اُس کی ماں دروازے کے اُس پار بین کررہی تھی، دروازہ پیٹھ رہی تھی، میری بیٹی خود کو آزاد کرنے کی کوشش میں تھی لیکن مجھ پر خون سوار تھا، میں نے اُس کا سر الماری میں رکھے کپڑوں میں دبا دیا تاکہ اُس کی چیخ باہر نہ جائے، اور پھرمیں نے اُس کے سر پہ دو فائر مارے، وہ صحیح طرح سے چیخ بھی نہیں سکی، توڑا تڑپنے کے بعد وہ ٹھنڈی پڑ گئی، میں نے اُس کو زمین پہ لٹا دیا، اُس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھی، چہرے پہ معصومیت کی جگہ وحشت نے لے لی تھی۔ مجھے اپنی بیٹی سے بہت پیار تھا، میر ے ہاتھ کانپ رہے تھے لیکن اگرمیں اُس کو نہ مارتا تو سماج کو کیا منہ دیکھاتا، کیسے سامنا کرتا معاشرے کا، میری تو ناک کٹ جاتی، میرے غیرت پہ لوگ انگلی اُٹھاتے، پھر یہ طعنہ میری نسلوں تک کو بھی سننی پڑتا۔ میرا دل تو جل رہا تھا لیکن میں مطمئن تھا، اب مجھے کوئی بھی یہ طعنہ نہیں دے گا کہ بدچلن بیٹی کو نہیں مارسکا"۔ بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کرنے کا یہ کوئی پہلا قتل نہیں ہے۔ سال 2021 میں خواتین پر تشدد کے 129 کیس

بلوچستان میں کینسر سے لڑتے ہوئے مریض

تصویر
تحریر: رخشندہ تاج بلوچ کینسر سے متاثرہ افراد کے لئے اکثر ہم ایسے الفاظ کا چناﺅ کرتے ہیں جس سے وہ ہمیت پکڑے اور موت سے پہلے موت کے منہ میں نہ جائے۔ لیکن ہم اِن الفاظ کا چناﺅ کرکے اپنا حق ادا کرتے ہیں اور کینسر زدہ شخص صر ف مسکرا کر رہ جاتا ہے ، اُس کی مسراہٹ کو دیکھ کر ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے الفاظ کارگر ثابت ہوگئے ہیں لیکن اُس بیمار شخص کو پتا ہوتا ہے کہ وہ روز بہ روز زندگی کی خاتمے کی طرف جارہا ہے ۔ ہوسکتا ہے کچھ افرادکے لیے یہ الفاظ واقع سود مند ثابت ہوں لیکن کچھ کے لیے سوائے لفاظی کے اور کچھ نہیں ہے ۔ کیونکہ وہ اندر سے جذباتی اور صدمے کار شکار ہوجاتے ہیں ، اور جب اُن کے اپنے خاندان اور دوست اُن کے اِس کیفیت کو سمجھ نہیں پاتے ہیں تو اُس کی زندگی مزید مشکل ہوجاتی ہے ۔ کیونکہ وہ الفاظ نہیں مدد چاہتے ہیں،علاج چاہتے ہیں۔ اِس درد سے چھٹکارہ پانا چاہتے ہیں ، زندگی چاہتے ہیں۔ اپنے لئے بہتر نگہداشت چاہتے ہیں ، اپنا علاج چاہتے ہیں جو ریاست کی زمہ داری ہے ۔ لیکن یہ زمہ داری کو ادا کرنے میں تاخیر برتی جارہی ہے ۔ حمل ظفر کی وہ مسکراہٹ ج

تربت کیچ میں برن سینٹر کیوں نہیں ہے ؟

تصویر
تحریر : رخشندہ تاج بلوچ ڈسٹرکٹ تربت کی رہائشی رقیہ ( فرضی نام ) گھر والو ں سے کسی بات پر جھگڑ کر اُس نے خود پہ پیٹرول چھڑکا اور آگ لگادی ، گھر والوں نے آگ بھجا دی اور اُس کو ڈسٹرکٹ سول ہسپتال لے کر گئے، اُس کے جسم کا ادھا حصہ مکمل طور پر جھلس چکا تھا، چار دنوں تک وہ مسلسل جلن اور درد کی تکلیف سے جوجتی رہی،کراچی جانے کے لیے اُس کے خاندان کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے، آخرکار اُس کی ڈیتھ ہوگئی،اگر ڈسٹرکٹ کیچ میں برن سینٹر ہوتا تو ہوسکتا تھا کہ وہ نہ مرتی۔ ایک اور واقعہ سال 2018 میں بلوچستان کے شہر تربت میں پیش آیا جس میں گیس سیلنڈر کا دھماکہ ہوا اور اسکول بس میں سوار ننھے ننھے بچے آگ کی نظر ہوگئے، اِس دل دہلا دینے واقعے میں ایک ہی ماں کے 4 بچے دیکھتے ہی دیکھتے آگ کی لپیٹ میں آگئے، لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اُن کو ہسپتال پہنچایا، لیکن امیر صوبہ کے غریب بچے برن سینٹر نہ ہونے کی وجہ سے ماہی بے آب اور مرغ بسمل کی طرح تڑپتے رہے اور کچھ بچے اِسی طرح جلے بھنے بدنوں کے ساتھ کراچی روانا کیے گئے لیکن اُن میں سے کچھ ابلہ اور سوختہ بدن درد کی شدت کو نہ سہتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جام

معذور افراد سماج کا حصہ ہیں۔۔۔ احساس کیجئے

تصویر
تحریر : رخشندہ تاج بلوچ 3دسمبر کو باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی خصوصی افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 1992 کو منظور ہونے والی قراد داد کے تحت ہر سال منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے 2006 میں کنونشن برائے حقوق معذوراں منظور کیا اور دستخط کنندہ ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ خصوصی افراد کو مساوی موقع دینےکےلیے قوانین بنائیں۔ مملکت پاکستان نے بھی اِس کنونشن پر دستخط کئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 1 کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد مختلف جسمانی معذوریوں سے ہمہ وقت نبرآزما ہیں۔ وہ تما م افراد جن میں سمجھنے، دیکھنے، سننے ، سونگھنے، بولنے ، چلنےپھرنے کی صؒلاحیت عام لوگوں سے کم ہو وہ خصوصی افراد کہلاتے ہیں۔ اسپیشل پرسن کےحوالے سے ہمارےمعاشرے کا روایہ ہمیشہ سے غیر مناسب رہا ہے ۔ یا ہم نے اُن کا تمسخر اُڑایا ہے یا پھر اُن کو رحم اور حیرت سے تکاہے کھبی اُن کی صلاحیتوں کو نہیں پرکھا ہے، اُن کو کھبی اُن کا ہنر دیکھانے کا موقع نہیں دیاہے، ہمیشہ سے اُن کے بارے میں صرف یہ نظریہ رکھا ہے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں کرسکتے۔حلانکہ خصوصی افراد نے رحم اور ب