ایڈووکیٹ شکیل احمد زعمرانی ! مکران کی عوام الناس کے مسائل کے لیے کاوشیں

تحریر: رخشندہ تاج بلوچ
بڑے بوڑھے ہمیشہ یہی ایک دعا دیتے ہیں کہ خدا تمہیں ہسپتال ، تھانے اور کورٹ کچہری سے دور رکھے۔ جو دعا لینے والوں کے دل میں ایک عجیب وسوسہ اور ڈر پیدا کردیتے ہیں۔ اور اُن کے لئے یہ تنیوں چیزیں بہت بڑی چیزیں ہوکر بڑے ڈر کی شکل اختیار کرلتیے ہیں ۔ لیکن وقت حاضر کو دیکھ کر لگتاہے کہ اب بڑے بوڑھوں کو اپنی دعاؤں میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے ، کیونکہ کورٹ کچری انسان کے زندگی کا ایک حصہ بن چکے ہیں ، جن کے بنا کوئی بھی حق انسان آسانی سے حاصل نہیں کرپا رہا۔ نا لوگوں کو اُن کے جائز حقوق دیے جارہے ہیں اور نا کہیں سنوائی ہورہی ہے۔ لوگوں کو چھوٹے سے چھوتی کام کے لیے بھی رُلنا پڑتا ہے۔ منتیں کرنے پڑتے ہیں، ٹیسٹ انٹریو میں کوالیفائی کرنے کے باوجود بھی کسی وزیر کی آشرواد کی ضرورت ہوتی ہے ۔
نوجوان بے روزگاری سے تنگ آکر برے کاموں میں ملوث ہورہے ہیں، ایک تجروبہ کار اور ٹیلینٹڈ نوجوان کے اوپر ایک سفارشی اور رشوت دینے والا بازی لے جاتا ہے۔ غریب کی اولاد ہمیشہ رُلتی رہتی ہے۔ جہاں غریب کے لئے قانون کے دروازے تک نہیں کھلتے اوروہاں امیر کے لیے قانون خود چل کر آتی ہے۔ جب کہ آئین پاکستان کے تحت سب شہریوں کو یکساں حقوق میسر ہیں۔ لیکن اِن حقوق کی پاسداری کا ذمہ کون اپنے سر لے لے؟ ۔ جب کہ ریاست کی زمہ داری ہے کہ وہ اِن حقوق کی حفاظت کرے اور ان پر عمل درآمد کروانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ کیونکہ مہذب معاشروں میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے اور ہر شخص کو برابر حقوق دئیےجاتے ہیں۔ ایک آئیڈیل سوسائٹی کی بنیاد یں اِن اقدامات سے ہوتی ہیں ۔ جب ہمیں کہیں بھی اپنے حقوق سلب ہوتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں تو ہماری آنکھیں اُمیدوں کا چراغ لیے خود بہ خود عدلیہ کی طرف دیکھتی ہیں ۔ اگرہم مکران کے عدالیہ پہ نظر گھمائیں تو ایک وقت ایسا بھی تھا کہ یہاں عدالتیں تھی ہی نہیں ، لوگ انصاف کے پیچھے خضدار تک چلے جاتے تھے۔پھر تربت میں عدلیہ کا قیام ہوا۔بعدازاں پنجگور میں سیشن کورٹس و دیگر عدالتیں قائم ہوئیں ،یہ سب کاوشیں اُس وقت کی تینوں ضلع پر مشتمل واحد بار مکران ایسوسی ایشن کے کوششوں سے ہوا۔
یہاں پہ ایک نام یاد آجاتا ہے، مکران بار ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکرٹری ایڈووکیٹ شکیل احمد زعمرانی کا جنہوں نے اپنے ساتھی مکران بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر فدا حسین کے ساتھ مل کر یہ کام انجام دیا ۔ جن کی انتک محنت اور کوششوں سے اٹھارویں آئینی ترمیم میں تربت ہائی کورٹ کی منظوری شامل ہوئی ۔ ہائی کورٹ تربت کے قیام کے بعد تربت کے عوام کو بہت سے مسائل سے چھٹکارا حاصل ہوا ، جن میں اپیل دائر کرنے کے لیے اُن کو کوئٹہ کا طویل سفر کرنے سے گلوخلاسی مل گئی۔ اُن کو اُن کی دہلیز پر ہی اپیل دائر کرنے کی ایک قانونی ریلیف مل گئی۔ جن کا سہرا مکران بار ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکرٹری ایڈووکیٹ شکیل احمد زعمرانی کے سرجاتاہے۔ اِس مردِ مجاہد نے مفاد عامہ کے لیے کئی آئینی درخواستیں دائر کی ہیں۔ جن کو مکران میں زیادہ آئینی درخواست دائر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اِس مصرودف دورمیں جہاں ہرکوئی اپنے بارے میں سوچتااور فکر کرتا ہے اِس دورمیں صرف لوگوں کے بارےمیں سوچنا زندہ ضمیر ہونے کی علامت ہے ۔
ٹیچنگ ہسپتال تربت میں بنیادی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے اُنھوں نے آئینی درخواست دائر کی جس میں ٹیچنگ ہسپتال تربت میں ادویات، مشین و دیگر آلات کی فراہمی، ڈینگی وائرس کے تدارک اور مریضوں کی بہتر ہیلتھ کیئر، تربت میں برن یونٹ کا قیام تھا اور اِس کے علاوہ بھی اُنھوں نے کہیں درخواستیں دائر کیے جن میں کیچ کے اسکولوں میں سہولیات کا نا ہونا، تربت شہر میں سڑکوں کی تعمیر، گرلز پولی ٹیکنیک کی فعالیت، سری کہن پل کی تعمیر، اے جی آفس کا قیام، سری کہن میں سبزی منڈی و گوشت منڈی کا قیام، محکمہ آثار قدیمہ ڈیمپارٹمنٹ میں آسامیوں کی تشہیر، تمپ روڈ، تمپ کالج، تمپ میں آر ایچ سی میں سہولیات کی فراہمی، تمپ کے اسکولوں میں سہولیات کی عدم دستیابی، گیس سلنڈر واقعےمیں طلبا ء و طالبات کو معاوضے کی ادائیگی، گرلز ڈگری کالج تربت میں بس کی فراہمی، مکران کالج کی فعالیت، حالیہ بارشوں سے کھجور وں کے نقصانات کا ازالہ،تربت ٹو پسنی روڈ،تربت شہر میں واکنگ ٹریک، موبائل ڈیٹا کی بندش،لوڈ شیڈنگ،تمپ میں محکموں کی فعالیت سمیت متعدد مفاد عامہ کے تحفظ کے لئے آئینی درخواست دائر کی ہیں جس سے عوام الناس کو بہت سے ریلیف ملا ہے۔ یہ وہ تمام مسائل تھے جن کے حل کے لئے ایڈووکیٹ شکیل احمد زعمرانی سرگردہ رہیں اور کافی حد تک کامیابی حاصل کرلی۔ اور یہ وہ اقدامات ہیں جن کو بنا کہے حکومت کو کرنے کی ضرورت ہیں لیکن کھبی کھبار ذمہ داریاں یاد دلانی پڑتی ہیں۔ اور اِس توجہ دلاؤ مہم میں ایڈوکیٹ شکیل احمد زعمرانی سب سے آگے رہے۔
اِس مصروف دور میں جہاں ہرکوئی زندگی کی بھاگ دو ڑمیں مصروف ہے تو وہ کیا وجہ ہے جس سے متاثر ہوکر ایڈووکیٹ شکیل احمد زعمرانی کیس کرنے نکل جاتے ہیں ، جب اُن سے پوچھا گیا تو کہتے ہے'' کچھ سالوں پہلے ایک رات جب میری پڑوس کی ایک بچی درد سے تڑپ رہی تھی تو میں نے انسانی ہمدردی کے تہت اُس کو اپنی گاڑی میں بٹھاکر تربت سول ہسپتال پہنچایا ، لیکن پورے ہسپتال میں ایک سرینج بھی دستیاب نہیں تھا، وہ بچی درد سے تڑپ رہی تھی ، چیخ رہی تھی، ہمیں مجبوراََ باہر کے فارمیسی سے وہ سرینج خریدنی پڑی، رات کی تاریکی میں ہسپتال کی خالی بلڈنگ میرا منہ چھڑاتی رہی، مجھے احساس ہو ا کہ یہ ہسپتال کے نام پہ صرف خالی بلڈنگیں ہیں ، جہاں میرے غریب عوام کے لیے کچھ بھی سہولیات نہیں ہے ، پھر میرا تو فرض بنتا تھا کہ میں اپنے غریب لوگوں کے لئے کچھ کروں، اِس ناانصافی پہ قانون کا دروازہ کھٹکھٹا ؤں ، پھرمیں نے اپنی ڈیوٹی سمجھ کر سہولیات کے فقدان کے خلاف ہائی کورٹ میں کیس کیا۔ اور یہی راستے کو اپنا شعار بنایا، اور اب تک مختلف ناانصافیوں پہ متعدد پٹیشن جمع کرچکا ہوں ، جن میں 80 فیصد کامیابی سے ہمکنار ہوں، اور اگے بھی ناانصافیوں کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا ؤنگا"۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انصاف کا حصول اتنا آسان نہیں ہوتا ، جس کے لئے کہتے ہیں قارون کا خزانہ، حضرت نوحؑ کی عمر اور ایوب کا صبر چاہئے ہوتا ہے لیکن اِ ن سب حقیقتوں کے باوجود بھی اگر کوئی اُٹھ کھڑا ہو اور عدالت میں جاکر صرف اپنے غریب لوگوں کے لئے حق کی صدا بلند کرے تو وہ مردِ مجاہد کہلاتا ہے ۔ اور مکران کی عوام ایڈووکیٹ شکیل احمد زعمرانی کے اِس جہاد کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کورٹ ڈائری۔۔۔۔۔۔ کہانی نمبر 1

شاہینہ شاہین بنامِ معاشرہ۔۔۔

بلوچستان میں کینسر سے لڑتے ہوئے مریض