زمانہ بدل گیا عورت کی تقدیر نہیں بدلی۔۔۔۔۔۔

تحریر: رخشندہ تاج بلوچ
پھٹے ہوئے ہونٹ ، سوجھا ہوا منہ، نیل پڑے رخسار، بکھرے بال ، ہاتھوں اور گردن پہ کھروچ کے نشانات واضح طور پر یہ پیغام دے رہے تھے کہ اُس پر بہت کچھ گزر اہے۔ اُس کو ازیتیں دی گئی ہیں، پیروں پہ بھی نیل کے نشان تھے۔ آواز کی لڑکھڑاہت روح کی شکستگی بھی بیان کررہی تھی۔ سکینہ ( فرضی نام ) 4 سال قبل اُس کی شادی وٹے سٹے کے تحت ہوئی تھی، اُس کی ایک 18 ماہ کی بیٹی بھی تھی۔ اُس نے بتایا کہ " شادی کے شروع کے دن تو میرا میاں میرا بہت خیال رکھتا تھا ، پھر بعد میں میری بھابھی جو وٹے سٹے میں گئی تھی ، نے شکایتیں شروع کئے کہ اُس کے ساتھ سسرال میں برا سلوک کیا جاتا ہے ، پھر یہاں میرا جینا مشکل ہوگیا، جب بھی اُس کی کال آتی مجھے یہاں اُس کی قیمت چکانی پڑتی، ، طعنے سننے پڑتے، مارکھانی پڑتی، مجھے بھوکا رکھا جاتا، گھر کے سارے کام مجھ سے کرائے جاتے۔ لیکن میں کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی ، کیونکہ ماں باپ نے رخصت کرتے وقت نصیحت کی تھی کہ اب اِس گھرمیں تمہارا صرف جنازہ ہی دوبارہ آئے گا۔ورنہ برادری میں ناک کٹ جائے گی۔ اور جب میں نے اپنے اوپر ہونے والی تشدد کی بات کی تو اُنہوں نے کہایہ مار پیٹ تو عام سی بات ہے، گزارہ کرلو جب بچے ہونگے تو یہ سارا معاملہ ٹھیک ہوگا۔پھر میں اُمید سے ہوگئی ، لیکن میرا حمل ضائع ہوگیا ، یکے بعد دیگر میرے 3 حمل ضائع ہوگئے، میں زہنی دباؤ کا شکار ہوگئی، لیکن میرا صحیح طور پر خیال نہیں رکھا گیا، میرا چوتھی بار حمل ٹھہرا تو میں نے بہت دعائیں کی کہ میرا حمل ضائع نہ ہو۔ پھر میری بچی پیدا ہوگئی اب تو شوہر کو مجھ پر تشدد کا لائسنس مل گیا کیوں کہ اُس کو بیٹے کی خوائش تھی ۔ میں کسی سے بھی مدد طلب نہیں کرسکتی ۔ اِس کو روکنے والا کوئی نہیں ہےکیوں کہ میرے پورے محلے کے گھروں میں یہی ہوتا ہے، سب کا اپنے بیوؤں کے ساتھ یہی سلوک ہے، بس میں صرف دعاکرتی ہوں کہ یہ سب میرے ساتھ ٹھیک ہوجائیں، میں اپنی بیٹی کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاسکتی اور میں کسی تھانے کچہری بھی نہیں جاسکتی کیونکہ میرے لئے پھر ہر دروازہ بند ہوجائے گا میرے خاندان والے بھی مجھ سے تعلق ختم کردینگے، اُنہوں نے کہا کہ ایک دفعہ جو میں بہت تنگ آگئی تھی تو میں اکیلی تھانے گئی تھی تو کسی نے میری رپورٹ تک درج نہیں کی ، بلکہ کہا بی بی یہ پاکستان ہے امریکہ نہیں ہے جہاں آپکی ایک شکایت پہ ہم رپورٹ درج کریں ، اِس پر ہم رپورٹ درج نہیں کرسکتے بہتر یہی ہے کہ آپس میں بیٹھ کر صلع کرلو۔میرے جسم پہ زخم کے نشانات واضح تھے تو تھانے والوں نے کہا کہ تمہیں پھر یہ بات کورٹ میں ثابت کرنی پڑے گی کہ تم پر تشدد ہوا ہے ، تم کو ثبوت پیش کرنے پڑے نگے، یہ بہت لمبا چکر ہے اِس میں نہ پڑو بلکیں سیدھے گھر جاؤ شوہر کے ساتھ بسنے کی کوشش کرو"۔ یہ تو صرف ایک سکینہ کی کہانی تھی ، پاکستان میں نجانے ایسی کتنی سکینہ ہیں جو اپنے گھر چادر اور چاردیواری جہاں عورت کو تحفظ کا یقین دیا جاتا ہے اور وہ وہاں روز روز شوہر اور سسرال والوں سے پٹتی ہیں ،لیکن اپنے مقدرکا سمجھ کر چھپ سادھ لیتی ہیں ۔ اگر ہمت کرکے تھانے تک پہنچ بھی جائے تو پہلے ہی اسٹیپ میں اُس کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اور تھانے میں اُسکی رپورٹ ہی درج نہیں کی جاتی ، حلانکہ ہونا یہ چاہیے کہ اگر کوئی عورت تھانے جائے تو سب سے پہلے یہ کام ہونا چاہیئے کہ اُسکی بات سنی جائے، اُس سے ہر زخم کا ثبوت نہ مانگی جائے ، کیونکہ بال کھینچنے، تھپڑ مارنے اور گالی دینے ، گھسیٹنے ، بھوکا رکھنے، بے عزت کرنے، زہنی ازیت دینے کا کوئی ایم ایل سی نہیں ہوتی جس کو وہ عورت کورٹ میں پیش کرے۔ انصاف کے نام پہ صرف کورٹ کچہری کے چکر اُس کے حصے میں آتے ہیں ۔جو آخر میں وو عورت خود ہی کو قصور وار سمجھتی ہے۔ اِس حوالے سے جب بات کی گئی اولڈ سریاب پولیس اسٹیشن کوئٹہ میں تو پولیس زرائع نے بتایا کہ ہمارے پاس مہنے میں گھریلو تشدد کے ایک ،دو کیسز آتے ہیں، لیکن ہم کوشش کرتے ہیں کہ رپورٹ درج نہ ہو، بلکیں فریقین کی صلع ہوجائے، ہم دوسرے قریقین کو بلاکر صلع کرواتے ہیں ، ہم کیس کو آگے بڑھنے نہیں دیتے، جب کہ پولیس کی ڈیوٹی بنتی ہے کہ وہ رپورٹ درج کرے لیکن ہم اُس کیس کو وہی پہ نپٹا دیتے ہیں"
ڈومیسٹک وائلنس پاکستان میں ایک ایسا موضوع ہے جس پر بات کرنا مشکل ہے ۔ کیونکہ بعض دفعہ ہم اِس کو صحیح طور پر بیان نہیں کرپاتے کیوں کہ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہا ں ہم نے عورت پہ مارپیٹ کو کھبی سنجیدہ لیا ہی نہیں ، اُس کو صرف ذاتی یا گھریلو معاملہ کہہ کر ہمیشہ دامن چھڑایا ہے۔ پاکستان میں تشدد کی شرح 32 فیصدہے اور سزائیں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ عورت نے ہمیشہ سے اِس بدسلوکی کو اپنا نصیب سمجھ کر چھپ سادھ لی۔ کیونکہ اِس معاملے میں ہمیشہ سے اُس کو تنہا کردیا گیا ہے۔ معاشرے کا ہر فرد اُس سے ثبوت مانگتا ہوا نظر آتا ہے۔ خاندان والے اور معاشرہ اُسی کو موردِ الزام ٹہراتا ہے کہ یہ خود گھر بسانے والی نہیں ہے۔ وہ ہرطرح سے بلیک میل کی جاتی ہے کھبی بچے چھین لینے کی دھمکی میں آکر خاموش ہوجاتی ہے ۔کھبی اُسکی کردار کے پرکچھے اُڑھائے جاتے ہیں ۔ لیکن عورت کے پاس ایسے کونسے قانونی آپشنز ہیں جس کے زرئعے وہ اپنا کیس آگے لے جاسکتی ہے ، یہ جاننے کے لئے رابطہ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سابق سیکرٹری ایڈووکیٹ سردار خضر محمود سے اُنہوں نے بتا یا کہ اگر گھریلو تشدد کی رپورٹ پولیس درج نہیں کرتی تو ( 22اے ) کی درخواست دے کر سیشن کورٹ سے بھی ایف آئی آر کا اندراج ہوتا ہے اگر ایسا بھی نہ ہو تو پرائیویٹ کمپلینٹ استغاثہ بھی ہوجاتا ہے ، استغاثہ کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ڈایریکٹ درخواست علاقہ مجسٹریٹ کو دی جاتی ہے اُسی دن بیان ریکارڈ ہوجاتاہے اور پھر ملزم طلب کیا جاتا ہے ، استغاثہ کے لیے آرٹیکل منشن کرنا لازمی نہیں ہوتا"۔ جون 2021 میں انسانی بنیادی حقوق کی پارلیمانی کمیٹی نے گھریلو تشدد ( بچاؤ اور حفاظتی اقدام بل 2021 تجویز کرکے اُس کو بحث کے لئے مارلیمان میں پیش کیا ، جس کا مقصد اُن خواتین ، بچوں اور کمزور افراد کو تشدد سے بچانا اور اُن کو محفوظ پناہ گائیں مہیا کرنا ، تشدد کرنے والے کو سزا دلوانا اور ان جرائم کو قابل دست دراندازی پولیس بنانا تھے۔ اِس کے علاوہ ملزم کو چھ مہینے سے لے کر ایک سال تک کی قید اور ایک لاکھ روپے تک کا جرمانہ بھی عائد ہوسکتا تھا۔ بل 2021 اُن خواتین کے لئے اُمید کی کرن تھی جو گھر کی چاردیواری میں بھی محفوظ نہیں اور روز پٹتی ہیں، جن کو جسمانی اور زہنی تکالیف دی جاتی ہے۔ یہ بل دونوں ایوانوں سے ( قومی اسمبلی اورسینیٹ) سے منظور ہونے کے باوجود معاشرے کی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ سرکاری سطح پر بہت سارے قوانین بنے ہیں لیکن وہ کیا وجہ ہیں یہ ابھی تک سرد خانے میں پڑے ہیں اِس حوالے سے جب رابطہ کیا گیا ' نیشنل کمیشن ان سٹیٹس آف ہومن ' کی نیشنل جینڈر ایکسپرٹ شبانہ عارف سے تو اُنہوں نے بتایا کہ " ملک میں جو پالیسز بن رہی ہوتی ہیں یہ اُن کے اوپر کام کرتا ہے تاکہ وہ عورتوں کے حق میں بہتر بن سکیں ، اور دوسرا یہ کہ اگر کوئی واقعہ ہوجائے جس پر ایکشن لینا پڑے تو جس صوبے میں ہوا ہے تو وہاں کے آئی جی کو خط لکھ کر پو چھ سکتے ہیں کہ کیا ہوا ہے ، اِس کی انویسٹی گیشن کیسے ہورہی ہے، یا بہت ہی ہائی پروفائل کیسز ہوتے ہیں ، اُس میں یہ لیڈ لیتا ہے ۔ جیسے کہ قندیل بلوچ کے کیس میں این سی ایچ ٖڈبلیو کے چیئرپرسن نے کہا ہے کہ یہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے یہ بہت زیادتی ہے، اور تازہ ترین خبر یہ ہے کہ حکومت خود اِس کیس میں پارٹی بننے جارہی ہے اُس کے بھائی کے خلاف۔ اِس کے علاوہ منسٹری آف ہیومن رائٹس میں عورتو ں کے لئے ایک ہیلپ لائن نمبر ہے اگر اُن کیسز کا تعلق ' برائے راست 'این سی ایچ ڈبلیو' سے ہو تو کیسز ہمیں ریفر کیے جاتے ہیں پھر ہم اُس کے اوپر ایکشن لیتے ہیں ، اور کچھ کیسز میں حکومت خود سمجھتی ہو کہ اِس کیس پر انوسٹی گیشن ہو تو وہ عدالت کو ڈاریکٹ حکم دے سکتی ہے کہ اِس پر انوسٹی گیشن کریں"۔ جب اُن سے گھریلو تشدد کی شرح کے متعلق پوچھا گیا تو اُنہوں نے بتایاکہ " جس طرح آبادی بڑھتی ہے، اُسی طرح گھریلو تشدد کے واقعات بھی بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اِس وقت فرق یہ ہے پہلے رپورٹ نہیں ہوتے تھے اور اب رپورٹ ہورہے ہیں ، پہلے میڈیا اِس طرح نہیں تھا وہ گھریلو تشدد کو نہیں دکھاتا تھا لیکن آج کی میڈیا ترقی پزیر اور آزاد ہے۔ خاص کر سوشل میڈیا نے اِس میں نئی جان ڈال دی ہے، جہاں واقعات فوراََ کور ہوجاتے ہیں۔ گھریلو تشدد ہمیشہ سے تھا لیکن اب لوگوں میں یہ ڈر ہے کہیں بات میڈیا اور لوگوں تک نہ پہنچ جائے۔ پہلے جب کوئی اپنی بیوی پہ تشدد کرتا تھا تو لوگ اِس پر نہیں بولتے تھے بلکیں کہا جاتا تھا کہ یہ اُن کا گھر کا مسلئہ ہےلیکن میڈیا اور سوشل رائٹس ایکٹی ویسٹ کے آواز اُٹھانے اور اِس پر کام کرنے کی وجہ سے اب لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی کے ساتھ اِس طرح کا وا قعہ ہورہا ہو یہ اُن کا گھر کا مسلئہ نہیں ہے بلکہ یہ معاشرتی مسلئہ ہے اور سوسائٹی کا مسلئہ ہے اور اُس کو کور کرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں جب ہم لڑکی کی شادی کرلیتے تو کہتے کہ اب وہی تمہارا گھر ہے چائے کچھ بھی ہوجائے تم نے واپس نہیں آنا ہے لیکن اب ایسا نہیں ہے دور کسی حد تک بدل رہا ہے لڑکی کے لئے ماں باپ کے گھر کے دروازے بھی کھلے رکھے گئے ہیِں ، شروعات میں نے اپنے گھر سے کی ہے اور اپنی بیٹی کو کہا کہ بیٹی شادی کے بعد جہاں بھی تم دیکھو کہ کوئی زور زبردستی ہو ، گزارا ناممکن ہو تو واپسی کے دروازے کھلے ہیں۔ اِ س کے ساتھ ساتھ ہم عورتو ں کو بااختیار بنارہے ہیں اگر کہیں وہ واپس آجائیں تو وہ خود کو سمجھال سکیں ۔ اُنہوں کے کہا کہ سرکار ی سطح پر قوانین بن گئے ہیں لیکن اُن پر عمل درآمد کرنے کے لئے وقت درکار ہے ،ایک خلع کا کیس جس کا فیصلہ عدالت 90 دنوں میں کرے لیکن ہمارے یہاں مہینوں مہینوں اور کئی دفعہ سالوں بھی لگ جاتے ہیں ۔ کیونکہ ہمارے سسٹم پہ برڈن بہت ہے۔ سرکار کے پاس وسائل کم ہیں، چونکہ ہم ایک غریب ملک ہیں ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں جو وہ عورتوں کے لئے الگ سے کورٹس بنائے جائیں۔ سرکار تو اپنی زمہ داری پوری کررہا ہے اُنہوں نے تو قوانین بنالئے ہیں لیکن ہمارے معاشرے کی سوچ اب بھی وہی ہے یہاں تک کہ پولیس والے بھی کہتے ہیں کہ اپس میں سمجھوتہ کرلو۔ کیونکہ ہم ایک مردانہ معاشرا اور پدرسری نظام میں رہتے ہیں"۔ عورت بھی اِس سرزمین میں بسنے والی ایک انسان ہے جن کو باقی جانداروں کی طرح درد ہوتی ہے ، اُس کے بھی احساسات ہیں ، لیکن معاشرے نے کھبی اِس پہلو پہ غور ہی نہیں کیا بلکہ آئے دن گھریلو تشدد کی شرح کم ہونے کے بجائے زیادہ ہورہی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی ایڈووکیٹ رابعہ ساغر بتاتی ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران اُنہوں نے قانونی مشاورت کے لئے ایک ہیلپ لائن بنائی جس پر اب تک 5000 سے زائد لوگ رابطہ کرچکے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ اگر اِس ہیلپ لائن کا تجزیہ کیا جا ئے تو 70 فیصد کیسز تشدد کے ہیں۔ زمانہ جاہلیت سے لے کر اب تک عورتوں پہ ظلم وزیادتی کم نہیں ہوئی، کھبی لڑکی کے نام پہ زندہ درگور ہوگئی ، تو کبھی بیٹی کے نام پہ اپنے ننھے وجود پہ 5 گولیوں کا تحفہ وصول کیا، کھبی غیرت کے نام پہ قتل ہوگئی تو کھبی بیوی کی صورت میں بنا جرم روزانہ مارپیٹ کھاتی رہی۔ اسلام نے عورت کو مقام اور حقوق دیے ہیں ، اُن کو عزت اور تکریم سے نوازہ ہے۔ پتا نہیں معاشرہ یہ بات کب سمجھے گا؟۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کورٹ ڈائری۔۔۔۔۔۔ کہانی نمبر 1

شاہینہ شاہین بنامِ معاشرہ۔۔۔

بلوچستان میں کینسر سے لڑتے ہوئے مریض