بلوچستان میں کینسر سے لڑتے ہوئے مریض

تحریر: رخشندہ تاج بلوچ
کینسر سے متاثرہ افراد کے لئے اکثر ہم ایسے الفاظ کا چناﺅ کرتے ہیں جس سے وہ ہمیت پکڑے اور موت سے پہلے موت کے منہ میں نہ جائے۔ لیکن ہم اِن الفاظ کا چناﺅ کرکے اپنا حق ادا کرتے ہیں اور کینسر زدہ شخص صر ف مسکرا کر رہ جاتا ہے ، اُس کی مسراہٹ کو دیکھ کر ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے الفاظ کارگر ثابت ہوگئے ہیں لیکن اُس بیمار شخص کو پتا ہوتا ہے کہ وہ روز بہ روز زندگی کی خاتمے کی طرف جارہا ہے ۔ ہوسکتا ہے کچھ افرادکے لیے یہ الفاظ واقع سود مند ثابت ہوں لیکن کچھ کے لیے سوائے لفاظی کے اور کچھ نہیں ہے ۔ کیونکہ وہ اندر سے جذباتی اور صدمے کار شکار ہوجاتے ہیں ، اور جب اُن کے اپنے خاندان اور دوست اُن کے اِس کیفیت کو سمجھ نہیں پاتے ہیں تو اُس کی زندگی مزید مشکل ہوجاتی ہے ۔ کیونکہ وہ الفاظ نہیں مدد چاہتے ہیں،علاج چاہتے ہیں۔ اِس درد سے چھٹکارہ پانا چاہتے ہیں ، زندگی چاہتے ہیں۔ اپنے لئے بہتر نگہداشت چاہتے ہیں ، اپنا علاج چاہتے ہیں جو ریاست کی زمہ داری ہے ۔ لیکن یہ زمہ داری کو ادا کرنے میں تاخیر برتی جارہی ہے ۔ حمل ظفر کی وہ مسکراہٹ جس کے پیچھے زندگی کی صدا تھی ۔ ایک ایسی مسکراہٹ جس کے پیچھے درد ، تکلیف ، خواہشات اور اُمید کی ملی جلی کیفیت چھپی ہوئی تھی۔ اُس کی موثّر مسکراہٹ یہ تقاضہ کرتی رہی کہ اُس کو زندگی چاہےے ۔اُن کی اُمید ہم سے تھی۔ اُن کی مسکراہٹ بلوچستان کے ہر وہ انسان کی نشاندہی تھی جو کینسر سے لڑ رہے ہیں ۔ایسے بہت سے حمل ہیں جو ہمارا راستہ دیکھ رہے ہیں ۔یہ ہمارے اپنے بچے ہیں ۔ یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں ۔ اِن کے درد کو محسوس کریں۔
ایک رپورٹ کے مطابق "دنیا کے مختلف کونوں میں ہر چھیالیس سکینڈ میں ایک عورت 'بریسٹ کینسر' سے زندگی ہار جاتی ہے۔ اگر پاکستان پر نظر ڈالیں تو گلوبل کینسر آبزرویٹری کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں کینسر کے تمام اقسام کے مقابلے میں بریسٹ کینسر کے کیسز کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے اور اموات کی شرح بھی " کینسر پر اعداد و شمار فراہم کرنے والے آ ن لائن پورٹل گلوبوکین کے مطابق سال 2020 میں پاکستان میں خواتین میں چھاتی کے سرطان کے 25،928 نئے کیسز سامنے آئے جبکہ 12،725 اموات ہوئیں۔
بلوچستان میں سرطان کے مریضوں کے علاج کے لیے باقاعدہ اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے علاج کے منتظرلوگوں کے زندگی کے چراغ گل ہوتے جارہے ہیں ۔اور ہم بے وسی کی مورت لیے کھڑے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں ۔اور کینسر کا مرض اپنی فوری طاقت کے ساتھ بلوچستان کے ہر گھر کے دروازے پہ کھڑا دستک دے ر ہا ہے ۔ہم خاموشی سے مرتو جاتے ہیں لیکن کینسر ہسپتال بنانے کے مقصد کو کبھی آگے لےکر نہیں جاتے۔بلوچستان کے زیادہ تر علاقوں میں خواتین ، مرد اور نوجوانوں سمیت نھنے معصوم بچے بھی سرطان میں مبتلا ہورہے ہیں۔
اِس حوالے سے بات کی ڈسٹرکٹ سول ہسپتال کے سابق ایم ایس ڈاکٹر جاوید کریم سے تو اُنہوں نے بتایا کہ " کینسر کے حوالے سےبلوچستان میں کچھ ایسے ہسپتال ہیں جہاں کینسر وارڈ بنے ہیں لیکن ایساکوئی مخصوص ہسپتال نہیں ہے جہاں صرف کینسر کا علاج ہو، مریض زیادہ تر کراچی کا رُخ کرتے ہیں جہاں وہ سفر کی تکلیف اور اضافی خرچے کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں ، کینسر ہسپتال بلوچستان کی ایک اہم ضرورت ہے جس سےکسی بھی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سابقہ بلوچستان گورنمنٹ نے 2020 میں بلوچستان میں کینسر ہسپتال کا سنگ ِ بنیاد رکھا تھا، لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر وہ مکمل نہ ہوسکا، جس پر ابھی بھی کام جاری ہے اور اُمید ہے کہ وہ جلد مکمل ہوگا۔ اِس کے علاوہ تربت میں 'سی ٹی اسکین ' کی بھی سہولت ہونی چاہیئے کہ مریض کا مرض پہلے ہی اسٹیج پر ڈائیگنوز ہو۔" لیکن اِس خطرناک مرض کے علاج کے لیے صوبے میں اب تک سرطان کے علاج کے لیے باقاعدہ کوئی اسپتال تک قائم نہیں ہوسکا۔
جب اِس حوالے سے بات کی گئی تربت بلوچستان میں قائم" احساس ویلفیئر آرگنائزیشن" کے صدر ملالیاقت ولی سے تو اُنہوں نے بتایا کہَ" ہمارا ادارہ مخیر حضرات کی ڈونیشن سے چلتا ہے ، ہم نے دوسالوں میں تقریباَچھ سوسے زائد مریضوں کو علاج کے لیے مدد کی ہے، لیکن ہم مکمل علاج نہیں کرسکتے کیونکہ یہ بہت مہنگی علاج ہے اور ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں ۔ اُنہوں نے بتایا کہ اِس وقت بلوچستان میں کینسر اور گردے کی بیماری خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں ، مردوں میں بلڈ کینسر کی شرح اور عورتوں میں چھاتی اور بچہ دانی کے کینسر کی شرح زیادہ ہیں۔ غریب لوگ علاج کی استطاعت نہیں رکھتے،اور بعض مریض علاج کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں کینسر ہسپتال کا وجود ضروری ہوچکا ہے ۔ جیسے کہ کراچی کا انڈس ہاسپٹل جو کینسر کے مریضوں کا مفت علاج کرتا ہے اور کرن ہاسپٹل جو معمولی اخراجات سے بھی کینسر کے مریضوںکا علاج کرتا ہے ، اِس کے علاوہ بیت السکون اور جناح ہسپتال کراچی جن میں ٹرسٹ ہیں جو مزکورہ مریضوں کا علاج کرتے ہیں بالکل اِسی طرح بلوچستان حکومت کو بھی چایئے کہ وہ اِن مریضوں کے لیے بلوچستان میں کوئی ٹرسٹ یا ویلفیئر ہی بنادے تاکہ یہاں کے مریضوں کی کراچی آنے جانے کی سفری ازیت ختم ہوسکے اور اُن کا پورا علاج اُن کے اپنے علاقے میں ہوسکے۔ سرکار اِس حوالے سے انڈومنٹ فنڈ کے تحت مریض کے لیے تقریباََ پینتیس سے چالیس لاکھ روپے مہیا کرتا ہے ، جو لمبے پروسس اور سفارشات کے بعد بڑے ہسپتالوں میں علاج ہوپاتا ہے ، لیکن کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ مریض کے ڈاکیومنٹس جمع ہوئے اور وہ انتظار کی سولی پہ لٹکتا رہا ، اُس کے مرنے کے بعدہی وہ فنڈ ریلیز ہوگئے، تو اِس کا پھر کوئی فائدہ ہی نہیں ہوا۔ یہ کم لوگوں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں ہرکسی کو اِس پہ رسائی نہیں ہے ۔اِس کے لیے سفارشیں بھی کی جاتی ہیں ۔ سرکار کو چائیے کہ اِس کو آسان بنائے، تاکہ ہرغریب مریض کی اِس تک رسائی ہو۔ کیونکہ کم مریضوں کی اپروول آتی ہیں باقی مریضوں کے ڈاکیومنٹس پڑے ہوتے ہیں۔ اُن کی زندگیاں ختم ہوجاتی ہیں لیکن اُن کی باریاں نہیں آتی۔ نو ر فاونڈیشن گردے کے علاج کا سیکشن ہے تربت میں ہے، جہاں ڈائلیسز ہوتے ہیں ، جہاں ہمارے مکران کے لوگ جاتے ہیں علاج کے لیے ، وہ وہاں پریشان ہیں کہ سہولیات نہیں ہیں تو احساس ویلفیئر کی طرف سے دو لاکھ کا سامان مہیا کیا گیا ہے تاکہ مریض پریشان نہ ہوں۔اِس طرح کا فاؤنڈینشن تربت میں ہو ، کیونکہ بعض مریض ایسے ہیں جن کو ہفتے میں دو دفعہ اور کچھ کو ہفتے میں تین دفعہ ڈائلسز کی ضرورت ہوتی ہیں ، بلوچستان کا ایک غریب مریض اتنے اخراجات کے ساتھ کراچی میں اتنا کیسے آ جا سکتا ہے۔ کینسر کے مریض کراچی میں رُل جاتے ہیں ، اُن کے پاس آخر میں ایک روپیہ بھی نہیں بچ پاتا، کچھ مریضوں کے ورثہ نے ہم سے رابطہ کیا کہ اُن کا مریض آغا خان ہسپتال میں زیر علاج ہے لیکن ہمارے پاس پیسے ختم ہوگئے ہیں تو ہماری مدد کریں ، تو احساس ویلفیئر نے اُن کی مدد کی۔ بلوچستان میں کینسر کے لیے ایک مخصوص ہستپال کا قیام ہوناچاہیئے۔ "
کوئٹہ میں " سینار کینسر ہسپتال " بھی ہے جو 12 سال سے زائد عمر کے مریضوں کا علاج کرتا ہے۔ جہاں کیموتھراپی بھی ہوتی ہے ، ٹیسٹ بھی ہوتے ہیں ، لیکن کچھ بڑے ٹیسٹ جیسے سی ٹی اسکین، ایم آر آئی، بائیوپسی وغیرے کے لیے کراچی ریفر کیا جاتا ہے، اگر یہ سہولیات سے لیس ہو تو مریضوں کو کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بلوچستان گورنمنٹ نے صوبے کے پہلے کینسر ہسپتال کا افتتاح سال2020 میں کرلیا تھا ، جو دو سال کی مدت میں مکمل ہونا تھا۔ محکمہ صحت کے مطابق کوئٹہ شیخ زائد ہسپتال کی اضافی اراضی کینسر ہسپتال کے لیے مختص کی گئی ہے۔ سنگ بنیاد گزشتہ سال سابق وزیر اعلیٰ جام کمال نے رکھا تھا ۔ اُسی شیخ زاہد ہسپتال میں ایک وارڈ کینسر کے مریضوں کے لیے مختص کی گئی ہے۔
وسیم (فرضی نام) تربت بلوچستان کا ایک محنت کش مزدور جس کی ماں گزشتہ سال کینسر میں مبتلا مدد کا انتظار کرتی ہوئی انتقال کرگئی تھی۔ نے بتایا " میرے لیے بہت ازیت ناک تھا جب میری ماں کا کینسر ڈائگنوز ہوا، ہمارا باپ ہمیں بچپن میں چھوڑ کر دوسری شادی کرچکا تھا، میری ماں نےبے بہت تکالیف جھیلی تھی ، اور اب کینسر کی تکلیف تھی، میں ماں کو لے کر کراچی جناح ہسپتال لے کر گیا وہاں میں مختلف ٹرسٹ کی مدد سے ماں کا علاج کراتا رہا، ماں اتنی کمزور ہوچکی تھی کہ اُن کا وزن 30 کلو ہوگیا تھا، وہ سفر کی تکالیف برداشت نہیں کرپارہی تھی۔ لیکن آخر میں میرے پاس کرائے تک کے پیسے نہیں تھے، ہماری مدد کرنے والا کوئی نہیں تھا ، ماں کا کیموتھراپی کا دوسرا سیشن ہونا باقی تھا لیکن ہمارے پاس کراچی پہنچنے تک کے وسائل نہیں تھے، ما ں مسلسل ازیت میں رہنے کے بعد ابدی نیند سوگئی ، وہ فوت ہوگئی۔" عالمی ادارہ صحت کے مطابق کینسر دنیامیں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مرض بن چکا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2032 تک دنیا بھر میں کینسر کے مریضوں کی تعداد 1 کروڑ 40 لاکھ سے بڑھ کر 2 کروڑ 50 لاکھ ہوسکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق فیصل آباد یونیورسٹی اور پینم کینسر ہسپتال فیصل آباد کے ماہرین طب نے کسی سرکاری نیوز ایجنسی کو بتایا تھا کہ پاکستان میں کینسر کے مریضوں کی تعداد ہرسال 8 سے 10 فیصد بڑھ رہی ہے۔
ویڈیو کا ترجمہ : "میں کوشقلات تمپ کی رہائشی ہوں۔ہمارے والد نے ہمیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ مجھے کینسر ہے، میری ماں نے کپڑے سی کر ایک لاکھ 50 ہزار روپے جمع کیے ، میرے ٹانگ کا آپریشن ہواہے۔ نہ میرے ماں کا کوئی بھائی ہے اور نہ میرا کوئی بھائی ہے۔ ہمارے پاس رکشہ تک کے کرائے نہیں ہیں، میں تین مہینوں سے کراچی میں ہوں ، ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ میں اُمید کرتی ہوں کہ آپ لوگ میری مدد کروگے۔ میں آپ تمام بہن بھائیوں سے درخواست کرتی ہوکہ میری مدد کریں میں شکرگزار رہونگی"
مریضوں کے لیے ایک جدید طبی سہولیات سے لیس ایک مخصوص کینسر ہسپتال ہونا چاہئے جس میں مریضوں کو ساری سہولیات ایک ہی چھت کے نیچے مل سکیں۔ ۔۔۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

زمانہ بدل گیا عورت کی تقدیر نہیں بدلی۔۔۔۔۔۔

کورٹ ڈائری۔۔۔۔۔۔ کہانی نمبر 1