کورٹ ڈائری۔۔۔۔۔۔ کہانی نمبر 1
تحریر: رخشندہ تاج بلوچ
صبح 11 بج کر 50 منٹ
دن :- ہفتہ
سیول کورٹ ایف ایٹ کچہری اسلام آباد۔۔۔
جب میں تھکے ہوئے سیڑھیاں پار کرکے کورٹ میں داخل ہوئی تو خلاپ معمول آ ج رش زیادہ تھا۔ کرسیاں سائلین سے بھری ہوئی تھی
جب کہ کچھ لوگ کھڑے تھے، میں بھی جاکر ایک کونے میں کھڑی ہوگئی۔جج بارعب اندازمیں اپنے مسند پہ براجمان تھے، اُن کے سامنے وکلا ء اپنے کلائنٹس کے ساتھ کھڑے تھے اور اپنے اپنے کلائنٹس کا دفاع کررہے تھے ، کچھ کے درمیان رشتے تقریباََ مرچکے تھے اور وہ صرف اُن کو دستور کے مطابق قانونی کفن پہناکر قانونی موت دینا چاہتے تھے۔ عمر رسیدہ خواتین کے ہاتھوں میں تسبیاں اور جوان عورتوں کے چہروں پہ وحشت کے آثار دیکھائی دے رہے تھے۔ کچھ معصوم چھوٹے بچے دنیا کے معاملات سے بے نیاہوکر کورٹ کے ننگے فرش پہ کھیل رہے تھے ، اور کچھ کے چہروں پہ خوف کا پہرا لگتا ہے اور وہ اپنی ماؤں سے چپک کر بیٹھے ہیں۔ کبھی خاموشی ہوتی تو کبھی منھمنانے کی آواز یں آتی ۔ جب ایک دم سے خاموشی ہوجاتی ہے تو وکیلوں کے بوٹوں کے ٹک ٹک کی وجہ سے کورٹ کے ماحول میں ارتعاش پیدا ہوتا، تو سائلین بے چینی سے دروازے کی طرف دیکھنے لگتے۔ پھر سکوت چھاگیا ، پھر بچوں کی آوازیں آتی اور پھر ماحول میں جھل تھل پیدا ہوا۔
خاموش ماحول میں اچانک سے صدائی نے صدا لگائی۔۔۔
صوفیہ بی بی بنام شوکت حاضر ہوں۔۔۔
بیٹھی ہوئی خواتین سے ایک جوان خاتون جس کی گود میں ڈھائی سال کی بچی تھی، بچی کو اُٹھائے وہ اپنے وکیل کے ساتھ جج کے سامنے کھڑی ہوگئی، دوسری جانب ایک جوان مرد اپنے وکیل کے ساتھ جج کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ خاتون جس کو شوہر نے دوسال پہلے طلاق دیا تھا نے اپنے شوہر پر نان نفقے کا کیس کیا ہوا تھا۔ مدعیہ کا وکیل جج کو بتا رہا تھا کہ بچی کا باپ گزاشتہ ڈھائی سال سے بچی کا خرچہ ادا نہیں کررہا ہے ، یہ عدالت اِ ن کو حکم صادر فرمائیں کہ یہ گزاشتہ ڈھائی سال کا خرچہ ادا کریں۔ مدعا علیہ کے وکیل نے اپنی آواز کو بارعب بناکر جج کو بتایا کہ میری کلائنٹ کی ماہانہ پگار صرف 30 ہزار روپے ہے، اور یہ اپنے بوڑھے ماں باپ کو بھی سنھبال رہا ہے، تو ہم خرچہ اقساط میں ادا کرینگے، ابھی ہم صرف 5000 عدالت میں جمع کررہے ہیں ، باقی اقساط بھی ہم جمع کردینگے۔ مدعا علیہ نے اپنی جیب سے 5000 نکال کر اپنے وکیل کو دیے اور وکیل نے ریڈر کو دئیے اور ریڈر نے ایک فائل پہ مدعیہ کے دستخط اور انگھوٹے کے نشان لیا اور پیسے اُن کے ہاتھ میں تھما دیے ، جس کو لے کر اُس خاتون کے چہرے پہ ایک مایوسی چھاگئی، جس کو یہاں پہنچنے میں شاید 5000سے زیادہ لگے تھے، ڈھائی سال کے خرچے کے پہلی قسط کے نام پہ 5000 اُس کے ہاتھ میں تھمادیئے گئے تھے۔ مدعاعلیہ کے وکیل نے جج کو کہا ! " جناب میری ایک سبمیشن ہے کہ بچی کی والد سے ملاقات کرائی جائےجس کے لیے باقاعدہ ہم کورٹ کو درخواست جمع کرئینگے" ۔ جج نے کہا ٹھیک ہے بچی سے مل لیں لیکن کورٹ میں یہ کہہ کر ساتھ ہی اگلی تاریخ بھی دے دی ۔ وہ خاتون پھر بچی کو اُٹھائے بینچ پہ آکر بیٹھ گئی، بچی اُس کے گود میں تھی، بچی کا باپ آیا، اور بچی سے کھیلنے لگا، جو اُس خاتون کے بہت ہی قریت تھا۔ وہ خاتون بہت ہی نروس ہورہی تھی، اُس کے لئے اُس مردم کا وجود برداشت کرنا مشکل تھا، لیکن وہ ضبط سے کام لے رہی تھی، آنکھوں کی نمی کو شاہد اندر ہی اندر پی رہی تھی، وہ کوئی تسبی پڑھ رہی تھی، اُس کے ہونٹ مسلسل ہل رہے تھے اُس کے وجود کی طرح۔ وہ مردبچی کا ویڈیو بناتا رہا، اُس کو اپنی طرف مائل کرنےکی کوشش کررہا لیکن وہ ننھی پری بار بار اپنی ماں کے گود میں چھپ جاتی ، جس کو اُس کا باپ آوازیں لگاتا اور پھر وہ ماں کی گود سے سرنکالتی ، ہنستی اور پھر سرگودمیں چھپاتی۔ میں اُس خاتون کی بے بسی اور ہراسمنٹ کو محسوس کررہی تھی جو قانونی طورپر ہورہی تھی۔ اُسکی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے یہ گمان گزرتا تھا کہ اُس کو وہ سارے تشدد اور بے عزتیاں یاد آرہی ہیں جو اُن کے ساتھ ہوئے ہیں ، جس کے وجود کو بے معنی شے سمجھ کر اُس کو طلاق دے کر گھر سے بے گھر کیا تھا ۔ باپ کے ہوتے ہوئے بھی اُس کی بچی کو یتیمی کی زندگی دے دی گئی تھی۔ شاہد ایک گھنٹے کی ملاقات تھی لیکن اُس کے لیے شاہد بہت ہی طویل تھی کہ وہ باربار موبائل سے ٹائم کو چیک کرتی۔ ایک گھنٹہ جیسے ہی پورا ہوا وہ کھڑی ہوگئی اور جج کو بتایا " جناب ٹائم پورا ہوا" جج نے فائل سے نظریں ہٹاکر اُس مرد کو کہا " بچی ماں کے حوالے کی جائے"۔ خاتون بچی کو گودمیں اُٹھا اور تیزتیز قدم اُٹھاتی ہوئی کورٹ روم سے نکل گئی۔۔۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں