غیرت کے نام پہ قتل کب بند ہوگا۔۔۔۔؟

تحریر: رخشندہ تاج بلوچ
جب میں اپنی بیٹی کو گھسیٹ کر کمرے میں لے کر آیا اور دروازہ اندر سے بند کردیا ، اُس کی ماں دروازے کے اُس پار بین کررہی تھی، دروازہ پیٹھ رہی تھی، میری بیٹی خود کو آزاد کرنے کی کوشش میں تھی لیکن مجھ پر خون سوار تھا، میں نے اُس کا سر الماری میں رکھے کپڑوں میں دبا دیا تاکہ اُس کی چیخ باہر نہ جائے، اور پھرمیں نے اُس کے سر پہ دو فائر مارے، وہ صحیح طرح سے چیخ بھی نہیں سکی، توڑا تڑپنے کے بعد وہ ٹھنڈی پڑ گئی، میں نے اُس کو زمین پہ لٹا دیا، اُس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھی، چہرے پہ معصومیت کی جگہ وحشت نے لے لی تھی۔ مجھے اپنی بیٹی سے بہت پیار تھا، میر ے ہاتھ کانپ رہے تھے لیکن اگرمیں اُس کو نہ مارتا تو سماج کو کیا منہ دیکھاتا، کیسے سامنا کرتا معاشرے کا، میری تو ناک کٹ جاتی، میرے غیرت پہ لوگ انگلی اُٹھاتے، پھر یہ طعنہ میری نسلوں تک کو بھی سننی پڑتا۔ میرا دل تو جل رہا تھا لیکن میں مطمئن تھا، اب مجھے کوئی بھی یہ طعنہ نہیں دے گا کہ بدچلن بیٹی کو نہیں مارسکا"۔
بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کرنے کا یہ کوئی پہلا قتل نہیں ہے۔ سال 2021 میں خواتین پر تشدد کے 129 کیس سامنے آئے۔ اور غیرت کے نام پر 118 افراد قتل ہوگئے۔ یہ وہ تعداد ہیں جو رپورٹ ہوچکے ہیں جب کہ اِس طرح کے کیسز عموماََ رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ حال ہی کا واقعہ ہے کہ کیچ کے علاقے پنجگور میں باپ اور بھائیوں نےمل کر لڑکی کو گاڑی میں ڈال کر ویرانے میں لے کر گئے اور وہاں گولیاں مارکرقتل کردیا اور اُس پر الزام یہ لگا دیا کہ اُس نے گھر میں پیسے چوری کئے تھے جس کی وجہ سے اُس کو قتل کیا ہے، جس پر کوئی پشیمانی نہیں ہے، اِس حوالے سے جب اہل علاقے سےبات کرنے کی کوشش کی تو اُنہوں نے بتایا کہ اُس نے پیسے چوری کیے تھے تبھی باپ اور بھائیوں نے مل کر مارڈالا، خاندان والوں کا بھی یہی موقف ہے۔ اِس حوالے سے جب پنجگور کے لوکل صحافی سے بات کی تو اُنہوں نے بتایا کہ " پورے علاقے میں یہی باتیں مشہور ہیں کہ مقتولہ نے گھر میں پیسے چوری کیے تھے جس کی پاداش میں اُس کو قتل کیا گیا ہے، اُس کی سسروالے بھی اِس پر بات کرنا نہیں چاہتے، خاندان والوں نے بھی چھپ سادھ لی ہے، علاقے میں چہ مگوئیاں پھیلی ہوئی ہے، ملزمان گرفتار ہیں لیکن پولیس اپنا موقف پیش نہیں کررہی ہے، لیکن حالات اور واقعات سے یہ لگتا ہے کہ یہ قتل پیسے کے لیے نہیں تھا بلکہ اِس کے پیچھے کوئی اور وجہ تھی لیکن تاحال خاموشی ہے واقعہ کو چوری کا رنگ دیا جارہاہے"۔
لیکن کیا کوئی پیسے کے لیے اپنی بیٹی اور بہن کو قتل کرسکتا ہے؟۔ اِس کیس میں کوئی بھی مدعی نہیں ہے، کوئی رپورٹ نہیں ہے، کوئی انصاف مانگنے والا نہیں ہے اِس حوالے سے جب بات کی گئی اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سابق سیکرٹری اور ہیومن رائیٹس کارکن ایڈووکیٹ سردار خضر محمود سے تو اُنہوں نے کہا کہ " قتل کی ایف آئی آر کے لیے گھروالوں کی مرضی ضروری نہیں ہے کوئی بھی بندا پولیس کو اطلاع کرکے یا اگر پولیس کو خود معلوم ہوجائے تو وہ خودایف آئی آر کاٹ سکتی ہے یہ جرم ایک بندے کے خلاف نہیں ریاست کے خلاف ہوتا ہے "۔ اِس حوالے سے مذید کہنا ہےبلوچستان ہائی کورٹ بار کے سنیئر نائب صدر ایڈووکیٹ شکیل احمد زامرانی کا کہ " اِس میں ضروری نہیں ہے کہ خاندان کے افراد ہی ایف آئی آ ر درج کروائیں۔ قتل کے کیسز میں پولیس خود کمپلینر بن سکتی ہے، ایف آئی آر درج کرسکتی ہے، باقاعدہ اُس پہ ثبوت اکھٹے کرکے عدالت میں باقاعدہ ٹرائل چل سکتا ہے"۔
پاکستان کی پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر قتل اور ریپ سے متعلق بل متفقہ طور پر منظور کرلیے ہیں۔ اِ س بل کے تحت غیرت کےنام پر قتل کے مقدمات کو ناقابل تصفیہ قرار دیا گیا ہے اور بل کے تحت مجرم قرار دیے جانے والے شخص کو عمر قید سے کم سزا نہیں دی جاسکتی، لیکن سوال یہا ں سر اُٹھاتا ہے کہ 'قندیل بلوچ ' کا بھائی پھر کیسے رہا ہوگیا؟۔ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں 90 فیصد کیسز میں صلع کی جاتی ہے کیونکہ عموماََ قاتل خاندان والے ہی ہوتے ہیں جو مل بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں، قندیل بلوچ کے کیس میں بھی یہی ہوا تھا کہ آخر میں والدین نے بیٹےکو معاف کرنے اور اس کو رہا کرنے کی درخواست عدالت کو دی،جس کی بنا پر مجرم کو معافی مل گئی اور وہ چھوٹ گیا۔
غیرت کے نام پر خون ریزی اِس لیے ہوتی ہے کہ خاندانوں کو اِس بات کی فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ سماج کیا کہے گا، لوگ باتیں بنانا شروع کردیتے ہیں ، چائے اِس میں عورت کا قصور ہو یا نہ ہو ، لیکن ایک دفعہ اُس کانام بیچ میں آجائے تو سزا اُس کا مقدر بن جاتا ہے، اُس کی قیمت وہ اپنی جان دے کر چکا تی ہے۔ اُس سے زیادہ سماج کی سنی جاتی ہے، سماج کو مطمئن کرنے کے لیے عورت کی بلی دی جاتی ہے ۔ اور سارا الزام عورت پہ لگایا جاتا ہے۔
5 ستمبر 2020 کو نامور صحافی مصور 'شاہینہ شاہین ' کو اُس کے شوہر نے گولیاں مارکر قتل کیا، جو تاحال فرار ہے، قتل کی وجہ تاحال معلوم نہیں ہوسکی ، لیکن اِس پرمعاشرے نے مختلف رائے قائم کیے اور آخر اُسی کو ہی الزام دیا گیا۔پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل میں زیادہ تر نوجوان لڑکیاں اور خواتین نشانہ بنتی ہیں ، تاہم بعض دفعہ مردوں کو بھی اِس میں ہاتھ دھونا پڑتا ہے لیکن اُ ن کی تعداد بہت کم ہے۔
غیر سرکاری تنظیم ' عورت فاؤنڈیشن ' بلوچستان کے ایک حالیہ رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں 2020 کے مقابلے میں 2021 میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل اور گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان میں ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی عورت تشدد کا نشانہ بنتی ہے"۔ ہیومن رائٹس کمیشن اف پاکستان کے مطابق پاکستان میں ہرسال تقریباََ ایک ہزار خواتین اور لڑکیاں اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل ہوجاتی ہیں ۔ قتل تو قتل ہے چائے وہ غیرت کے نام پر ہی ہو، وہ قا بل ِ مزحمت ہے۔ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی سے اُس کی زندگی چھین لے۔ عورت کو اسلام نے وراثتی، سماجی اور معاشرتی حقوق دئیے ہیں۔ اسلام قتل جیسے فعل کو سختی سے منع کرتا ہے۔ بلوچستان کی زیبا(فرضی نام ) کو اُس کے چچا نے کہلاڑی سے مار کر قتل کیا تھا ،جس کو شک تھا کہ وہ اپنے موبائل سے کسی غیر مرد سے بات کرتی ہے۔ تاریخ کے اوراق ایسے بہت سے واقعات سے بھرے پڑے ہیں جن کو ناحق صرف اِ س بات کے لیے منوں مٹی تلے دبایا گیا ہے کہ سماج کے انا کو تسکین مل سکے، جس کی پاداش میں معصوم لڑکیاں اور خواتین غیرت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ ایسے واقعات روکنا ریاست اور قانون کی زمہ داری ہے، ایسے واقعات ملزم کو سزا د ے کر ہی کم کی جاسکتی ہے، پولیس ورثہ کا انتظار کرنے کے بجائے خود ایف آئی آر کاٹ لے اور اپنی کاروائی شروع کردے، جب کہ ہمارے یہاں انتظار کی جاتی کہ خاندان کی طرف سے کوئی آئے اور شکایت درج کرے، اِس حوالے سے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ہیومن رائٹس کارکن چوہدری صفدر کہتے ہیں " اِس صورت میں پولیس اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کرواسکتی ہے۔ لیکن عام طور پر پولیس ایسا نہیں کرتی۔ پولیس مقتول/مقتولہ کے کسی نہ کسی رشتے دار کو عارضی مدعی بناکر مقدمہ درج کرلیتی ہے"۔ غیرت کے نام پہ قتل کو اُس صورت روکا یاکم کیا جاسکتا ہے جب جرم ثابت ہوجانے پر مجرم کو قانون کے مطابق سزا ملے۔اُس کو احساس دلایا جائے کہ اُس نے اپنی غیرت نہیں بچائی بلکہ کسی کا ناحق خون بہاکر اُس سے اُس کی زندگی کا حق چھین لیا جس کی اجازت نہ اسلام دیتی ہے اور نہ پاکستان کا آئین۔۔۔۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بلوچستان میں کینسر سے لڑتے ہوئے مریض

شاہینہ شاہین بنامِ معاشرہ۔۔۔

زمانہ بدل گیا عورت کی تقدیر نہیں بدلی۔۔۔۔۔۔