معذور افراد سماج کا حصہ ہیں۔۔۔ احساس کیجئے

تحریر : رخشندہ تاج بلوچ
3دسمبر کو باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی خصوصی افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 1992 کو منظور ہونے والی قراد داد کے تحت ہر سال منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے 2006 میں کنونشن برائے حقوق معذوراں منظور کیا اور دستخط کنندہ ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ خصوصی افراد کو مساوی موقع دینےکےلیے قوانین بنائیں۔ مملکت پاکستان نے بھی اِس کنونشن پر دستخط کئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 1 کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد مختلف جسمانی معذوریوں سے ہمہ وقت نبرآزما ہیں۔ وہ تما م افراد جن میں سمجھنے، دیکھنے، سننے ، سونگھنے، بولنے ، چلنےپھرنے کی صؒلاحیت عام لوگوں سے کم ہو وہ خصوصی افراد کہلاتے ہیں۔ اسپیشل پرسن کےحوالے سے ہمارےمعاشرے کا روایہ ہمیشہ سے غیر مناسب رہا ہے ۔ یا ہم نے اُن کا تمسخر اُڑایا ہے یا پھر اُن کو رحم اور حیرت سے تکاہے کھبی اُن کی صلاحیتوں کو نہیں پرکھا ہے، اُن کو کھبی اُن کا ہنر دیکھانے کا موقع نہیں دیاہے، ہمیشہ سے اُن کے بارے میں صرف یہ نظریہ رکھا ہے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں کرسکتے۔حلانکہ خصوصی افراد نے رحم اور بھیک کو ٹکرا کر اپنے ہنر اور صلاحیتوں سے خود کو منوانا چاہا لیکن معاشرے کی ستم ظریفی نے اُن کو پیچھے دھکیلا، اُن کو دھتکارا۔ کیچ مکران کی معذور افراد کی صورت حال کے حوالے سے جب بات کی " اسپیشل پرسن آرگنائزیشن بلوچستان" کے صوبائی کورآرڈینیٹر شکیل غریب سماعلیزی سے تواُنہوں نے بتایا کہ " بلوچستان میں خصوصی افراد کی تعداد 2 لاکھ سے زائد ہے۔اِ س وقت صرف تربت میں معذور افراد کی تعداد 5000 سے زائد ہیں جو بہت ہی کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں، تعلیم حاصل کرنے کے لیے کوئی وسائل نہیں ہیں، سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں ایکسیبل ریمپ کی سہولت نہیں ہے ہم نے اپنے آرگنائزیشن کے توسط سے انتظامیہ سے بات کی اُنہوں نے یقین دلایا کہ اقدام اُٹھائینگے لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ ، خالی آسامیوں میں فیصد 5 معذور کوٹے پہ عمل درآمد نہیں کیا جاتا ، معذورکوٹے پہ عمل درآمد کرنے کے لیے بار بار یاد دیانی کرانی پڑتی ہے، لیکن اِس کے باوجود سستی برتی جاتی ہے عمل درآمد نہیں کرایا جاتا سابقہ ادوار میں بھی کوٹے پہ عمل درآمد نہیں کیا گیا جو اب بھی یہ حق تلفی کی جاری ہے ، جو گریجویٹ ہیں سرکاری ملازمتیں نا ملنے کی وجہ سے وہ اور ایج ہوگئے ہیں وہ اب ملازمت کے حوالے سےقسمت ازمائی بھی نہیں کرسکتے ہیں ، وہ چونکہ بال بچوں والے ہیں اور ریاست کی زمہ داری ہیں تو سرکار کو چاہیے کہ وہ ڈسٹرکٹ انتظامیہ کو حکم دے کہ اِن افراد کا ڈیٹا کلکشن کیا جائے اور ان کا وظیفہ مقرر کیا جائے اور ملازمت دی جائے۔ اِ س حوالے سے ہم نے علاقے کے نمائندوں سے بات کی ہے کہ اسمبلی میں اِس حوالے سے کوئی قراد داد پیش کرے لیکن کوئی اقدام نہیں اُٹھایا گیا۔
۔ اُنہوں نے بتایا کہ ایک ایک معذور ویل چیئر اور بیساکھی کے لیے مستحق ہے لیکن بیت المال، سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ زکواۃ، ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن سمیت علاقے کے کسی ایم این اے نے آج تک اِس طرف دھیان نہیں دیا اور سوچا بھی نہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ میل اور فیمیل خصوصی افراد کو ہنر مند بنایا جائے تاکہ وہ خود کفیل ہوسکیں اور کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں۔ پچھلے پانچ سالوں سے لے کر اب تک 70000 سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ ہوچکے ہیں اپنی مدد آپ کے تحت، حکومت کو چاہیئے کہ اُن کا سروے کریں کیونکہ دیہی او ر دور دراز علاقوں کے لوگ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوآرٹر ہسپتال میں رجسٹرڈ کاؤنٹر پہ نہیں آسکتے اُن کے لیے مشکل ہے، علاوہ ازیں سوشل ویلفئیر ڈپارٹمنٹ کے چکر کاٹنا اُن کے لیے تکلیف دہ ہے۔ اُن کی سہولت کے لیے ون ونڈو رجسٹریشن کا نظام ہو۔ "
معاشرے کا یہ تلخ اور لاپرواہ روایہ خصوصی افراد کی زندگیوں کو مذید مشکل اور تکلیف دہ بناتے ہیں۔ سماج کو اِس حوالے سے اپنے روایوں میں تبدیلی لانی چاہیئے، اور سرکاری سطح پر بھی اقدام اُٹھائے جانا چاہیئے ، جس میں ملک بھرمیں درست سروے کروا کر خصوصی افراد کی اصل تعداد معلوم کرنا، اُن کو سوسائٹی کا مفید رکن بنانے کے لیے علاج کی سہولیات فراہم کرنا، اُن کی مشکلات اور اُن کے معاشی ، قانونی اور سماجی حق و حقوق کے حوالے سے لوگوں میں شعور پیدا کرنا، سماج کو اُن کی طرف راغب کرنا شامل ہوں۔ معذور افراد کے حوالے سے پاکستان میں بنیادی قانون سازی کی گئی ہے، معذور افراد (ملازمت و بحالی) ارڈیننس 1981، قومی ایکشن پلان برائے معذوراں 2006، مخصوص شہری ایکٹ 2008 اور مخصوص شہری برائے حق رعایت نقل و حرکت ایکٹ 200 پاس ہوچکے ہیں۔قانون کی کتابوں میں ان قوانین کی دستیابی کے باوجود خصوصی افراد کے مسائل میں اضافہ اِ س بات کی تشریح کرتا ہے کہ اصل مسلئہ عمل درآمد کے ناپیدکا ہے۔جتنے بھی قوانین بنے ہیں اگر اُن پر عمل درآمد کی جائے تو معذور افراد کو اپنے حق کے لیے سڑکوں پہ نکلنےکی ضرورت نہیں پڑے گی۔
پاکستان کی موجودہ حکومت نے '' احسا س کفالت برائے خصوصی افراد پروگرام " کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تھا جس کے تحت پورے پاکستان سے 20لاکھ خصوصی افراد کے خاندانوں کو ماہانہ دوہزار کی مالی دی جارہی ہے، جس میں ایک گھر سے ایک ہی آدمی اپلائی کرسکتا ہے ہے ،یہ وظیفہ لینے کے حقدار صرف وہی لوگ ہونگے جن کا نادرا ڈیٹا بیس میں خصوصی فرد لکھا ہوگا۔
جب اِس حوالے سے خصوصی افراد کی رائے معلوم کی گئی تو اُنہوں نے کہا کہ '' یہ ایک اچھا اور مثبت پروگرام ہے اگر اِس کو باقاعدگی سے چلایا گیا تو اِس سے سرکارکی طرف سے خصوصی افراد کی مالی مدد ہوجائے گی۔ اُنہوں نے سرکار سے اپیل کی ہے کہ یہ راقم 2000 سے بڑا کر کم از کم 5000 کیے جائیں"۔ کسی بھی آئیڈیل معاشرے کے تعمیر اور ترقی میں اداروں کا اہم کردار ہوتا ہے، سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ جن سے ہمیشہ معذور افراد آس لگائے بیٹھتےہیں ۔ اِ س حوالے سے رابطہ کیا قدیر لقمان ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ سے تو اُنہوں نے بتایا کہ " سوشل ویلیفئیر ڈیپارٹمنٹ معذور افراد کے حوالے سے بلوچستان گورنمنٹ کا مینڈیٹ ہے، تقریباََ 500 سے زائد خصوصی افراد سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ ہیں ، گورنمنٹ بلوچستان معذور افراد کو وئیل چیئر، ٹرائی موٹرسائیکل، ٹرائی سائیکل،بیساکھی اور بینائی سے محروم افراد کو چھڑی مہیا کررہا ہے۔ اِس کے علاوہ اسپیشل ایجوکیشن اسکول بھی ہے جس میں تقریباََ 58 قوتِ سماعت اور قوتِ گویائی سے محروم بچے رجسٹرڈ ہیں۔ علاوہ ازیں اِ ن افراد کی ہم رجسٹریشن کرتے ہیں، جو ملازم ہیں اُن کو 2000 روپے اسپیشل الاؤنس دی جاتی ہے، جو ملازم نہیں ہیں اُن کو سرکار ا"حساس کفالت برائے خصوصی افراد پروگرام " اور دوسرے اسکیمات کے تحت مدد کرتی ہے"۔
معذور افراد کا اصل امتحان اُس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ گھر سے باہر نکلتے ہیں، عوامی مقامات میں اُن کے لیے کوئی خاص انتظامات نہ ہونے سے اُن کے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ سرکار کو چاہیئےکہ اِ ن مسائل کو کم کریں اِن کے لیے خاص انتظامات کرے تاکہ وہ بھی عام شہریوں کی طرح آزادی سے نقل و حرکت کرسکیں، اور معاشرہ بھی اپنا روایہ تبدیل کرے بجائے اُن کو ایک ناکارہ اور قابل رحم سمجھ کر اُس کو ٹریٹ کرنے کے بجائے اُن کے ہنر کو پہچان لے، اُس کو اُس کی معذوری کے لحاظ سے یاد نہ کرے بلکہ ایک ہنر مند اور کارآمد شہری کے طور پر جان لے۔ اِ ن افراد کا سب سے اہم مسلئہ انکی ذہنی و جسمانی بحالی اور معاشرے میں اُن کا باعزت مقام کا حصول ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کورٹ ڈائری۔۔۔۔۔۔ کہانی نمبر 1

شاہینہ شاہین بنامِ معاشرہ۔۔۔

بلوچستان میں کینسر سے لڑتے ہوئے مریض