غیرت کے نام پہ قتل کب بند ہوگا۔۔۔۔؟
تحریر: رخشندہ تاج بلوچ جب میں اپنی بیٹی کو گھسیٹ کر کمرے میں لے کر آیا اور دروازہ اندر سے بند کردیا ، اُس کی ماں دروازے کے اُس پار بین کررہی تھی، دروازہ پیٹھ رہی تھی، میری بیٹی خود کو آزاد کرنے کی کوشش میں تھی لیکن مجھ پر خون سوار تھا، میں نے اُس کا سر الماری میں رکھے کپڑوں میں دبا دیا تاکہ اُس کی چیخ باہر نہ جائے، اور پھرمیں نے اُس کے سر پہ دو فائر مارے، وہ صحیح طرح سے چیخ بھی نہیں سکی، توڑا تڑپنے کے بعد وہ ٹھنڈی پڑ گئی، میں نے اُس کو زمین پہ لٹا دیا، اُس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھی، چہرے پہ معصومیت کی جگہ وحشت نے لے لی تھی۔ مجھے اپنی بیٹی سے بہت پیار تھا، میر ے ہاتھ کانپ رہے تھے لیکن اگرمیں اُس کو نہ مارتا تو سماج کو کیا منہ دیکھاتا، کیسے سامنا کرتا معاشرے کا، میری تو ناک کٹ جاتی، میرے غیرت پہ لوگ انگلی اُٹھاتے، پھر یہ طعنہ میری نسلوں تک کو بھی سننی پڑتا۔ میرا دل تو جل رہا تھا لیکن میں مطمئن تھا، اب مجھے کوئی بھی یہ طعنہ نہیں دے گا کہ بدچلن بیٹی کو نہیں مارسکا"۔ بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کرنے کا یہ کوئی پہلا قتل نہیں ہے۔ سال 2021 میں خواتین پر تشدد کے 129 کیس